میر تقی میرؔ/mir taqi mir

میر تقی میرؔ

خدائے سخن میر تقی میرؔ کی شاعری وقت اور مقام کی قید سے آزاد ہے ۔ داخلی کیفیات اور خارجی عوامل نے ان کی شاعری کے موضوعات کو عالمگیر بنا دیا ہے ۔

پہلی غزل

شعر نمبر 1

جس سر کو غرور آج ہے ، یاں تاج وری کا

کل ، اس پہ یہیں شور ہے ، پھر نوحہ گری کا

شعر نمبر 2

آفاق کی منزل سے گیا ، کون سلامت

اسباب لُٹا راہ میں ،یاں ہر سفری کا

شعر نمبر 3

ہر زخمِ جگر داورِ محشر سے ہمارا

انصاف طلب ہے،تری بیدادگری کا

شعر نمبر 4

لے سانس بھی آہستہ ، کہ نازک ہےبہت کام

آفاق کی اس کار گہِ شیشہ گری کا

شعر نمبر 5

ٹُک میرؔ جگر سوختہ کی ، جلدخبر لے

کیا یار بھروسا ہے ، چراغِ سحری کا

میر تقی میرؔ

دوسری غزل

شعر نمبر 1

گُل کو ہوتا صبا !قرار اے کاش!۔

رہتی ایک آدھ دن ،بہار اے کاش!۔

شعر نمبر 2

یہ جو دو آنکھیں ، ُمند گئی میری

اس پہ وا ہوتیں،ایک بار اے کاش!۔

شعر نمبر 3

کن نےاپنی مصیبتیں نہ گنیں

رکھتے میرے بھی غم،شمار اے کاش!۔

شعر نمبر 4

جان آخر تو جانے والی تھی

اس پہ کی ہوتی،میں نثار اےکاش!۔

شعر نمبر 5

اس میں راہ سخن نکلتی تھی

شعر ہوتا ترا شعار ،اے کاش!۔

شعر نمبر 6

شش جہت اب تو تنگ ہے ہم پر

اس سے ہوتے نہ ہم ،دوچار اے کاش!۔