نظم “تغیر “ بارھویں جماعت سرمایہ اردو ( اردولازمی ) کی نویں نظم ہے ۔ جس کے شاعر احسان دانش ہیں اور یہ نظم ان کے شعری مجموعے ” نفیر فطرت “ سے لی گئی ہے ۔ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن پنجاب کے تمام بورڈز کے سالانہ امتحانات میں وقتاً فوقتاً اس نظم کا خلاصہ آتا رہتا ہے ۔
شاعر: احسان دانش
تغیر
خلاصہ
اے دوست ! میں جو کہنے جا رہا ہوں ، وہ بات ناقابلِ تردید ہے۔زندگی ـــــــ مسلسل تبدیل کا نام ہے۔رات کی آنکھیں ،صبح کے درشن کے لیے وا رہتی ہیں۔ہر آواز ، خامشی کے صدمے اٹھاتی ہے بہاروں کا قافلہ پت جھڑ کے بیابانوں کی طرف رواں رہتا ہے اور ہر ہرا پتا شاخ کے داغ ِ عیوب برہنگی ڈھانپے ہوئے ہے۔خوشبو ، پھولوں کے بند قبا کھلنے کی منتظر رہتی ہے موسم بدلنے کی لگن میں سرگرداں رہتے ہیں ۔ سورج ، چاند اور تارے محوِ سفر رہتے ہیں تا کہ گردش لیل و نہار قائم رہے اور آسمان رنگ پہ رنگ بدلتا رہتا ہے شہر ہو ، جنگل ہو جلوت ہو یا خلوت ـــــــــ مسلسل تبدیلی ہی ان کی بقا کا راز ہے۔اس کائنات میں ہر شے پر تغیروتبدل کا سحر چھایا ہوا ہے کوئی بھی چیز حالتِ سکوں میں قائم نہیں رہ سکتی ۔