نظم “نوجوان سے خطاب” بارھویں جماعت سرمایہ اردو ( اردولازمی ) کی ساتویں نظم ہے ۔ جس کے شاعر اسرار الحق مجاز ہیں اور یہ نظم ان کی کتاب “آہنگ” سے لی گئی ہے ۔ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن پنجاب کے تمام بورڈز کے سالانہ امتحانات میں سب سے زیادہ اسی نظم کا خلاصہ آتا ہے ۔
شاعر: اسرارالحق مجاز
نوجوان سے خطاب
خلاصہ
اے میری قوم کے نوجوان ! اپنی جوانی میں وہ آگ اور وہ گرج پیدا کر کہ موت بھی ہیبت زدہ رہ جائے ۔ تیشہ فرہاد میں تیرے لیے جوانی کے گیت اور پتھروں کی صدائیں تیرے لیے طاؤس و رباب ہیں ۔ تری جوانی کی کمندیں ستاروں پہ ہونی چاہییں ۔ تری جوانی اس کانٹوں بھری دنیا میں گلابوں کی امید ہے ۔ زمانہ تیری ضرب ِکلیمی کا منتظر ہے ۔ خوابِ سکون تو ناتواں بڑھاپے کی مرگ ِ مفاجات ہے جبکہ تیرے لہو کی گرمی صرف جھپٹنے پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے کی متقاضی ہے ۔ تیری کوئی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی ۔ اگر ترا لہو اس زمین پر بہا تو اس کی سرخی مہکتے گلابوں کو جنم دے گی۔