ایوب عباسی سبق کا خلاصہ : سبق “ایوب عباسی” رشید احمد صدیقی کی کتاب “گنج ہائے گرں مایہ ” سے لیا گیا ہے۔”جس میں اردو ادب کی نامور شخصیات کے خاکے پیش کیے گئے ہیں ۔
سبق “ایوب عباسی” بارھویں جماعت سرمایہ اردو( اردولازمی) کا سبق ہے۔ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن پنجاب کے تمام بورڈزکے سالانہ امتحانات میں سب سے زیادہ اور بار بار اس سبق کا خلاصہ آتا ہے ۔
-
خلاصہ کی تعریف:
سبق کے تمام پیراگراف میں موجود بنیادی نکات کو مختصراً نثر میں بیان کرنا خلاصہ کہلاتا ہیں۔
-
خلاصہ لکھتے ہوئے مندرجہ ذیل نکات کا خیال رکھنا چاہیے.
- سبق کا خلاصہ 2 سے 3 صفحات کے درمیان ہونا چاہیے
- سبق کے خلاصے میں تمام نکات کی ترتیب اور تسلسل کو مدِ نظر رکھ کر خلاصہ لکھنا چاہیے۔
- سبق کے خلاصہ میں غیر ضروری وضاحت اور تنقید سے پرہیز کرنا چاہیے۔
- سبق کاخلاصہ 10 سے15 منٹ میں لکھنا ہوگا ۔
- سبق کا خلاصہ 10نمبر کاہو گا( 1 نمبر مصنف کے نام کا ہوگا اور 9 نمبر کا خلاصہ لکھنا ہو گا
- 2 اسباق کے نام ہوں گے اور آپ کو ان دونوں میں سے کسی ایک کا خلاصہ لکھنا ہو گے۔
- سال دوم کے پیپر میں چوتھا سوال سبق کے خلاصےکے بارے میں پوچھا جائے گا۔
خلاصہ یاد کرنے کے لیے سرخیاں لگائی ہیں سالانہ پیپر میں لکھنے کے لیے خلاصےکا نمونہ نیچےدیاگیا ہے
ایوب عباسی کی شخصیت اور اہمیت
ایوب عباسی ـــــــــــ ایک ایسے انسان کا خاکہ ہے جس کی موجودگی کا احساس اس کے مرنے کے بعد ہوا۔ہوا ، پانی اور روشنی کی طرح وہ سب کا خدمت گزار رہا اور انہی کی طرح نا قابلِ التفات بھی ۔ ایوب ایسی عامیانہ شخصیت کہ نہ شکل وصورت میں نمایاں اور نہ ہی عقل وفہم میں کسی امتیاز کے حامل لیکن اپنی خدمت گزار فطرت کی بدولت وہ ہر شخص کی زندگی میں شامل ہوگئے تھے ۔
ایوب عباسی کا رشید احمد صدیقی سے تعلق
مصنف کی نجی زندگی میں ، خوشی اور غم کے ہر موقع پر ایوب سب سے آگے رہتے ۔ دوستوں کی خوشی میں پھولے نہ سماتے اور دُکھی دنوں میں خاموشی کی چادر اوڑھے پھرتے ۔ دوست احباب کی تن آسانی اور کاہلی کا بوجھ بھی اسی ایوب نے اپنی جان پر اٹھائے رکھا ۔ ان کے معمولی سے گھر میں علی گڑھ کے ان طلبہ کا ایک ہجوم رہتا جو قرابت داری کا فائدہ اٹھا کروہاں رہائش پذیر رہتے ۔ ان کی تیمارداری کے انداز میں صبر اور خدمت کا بے مثل امتزاج تھا اس پر بھی دوستوں کے سخت سست کلمات سہنا انھی کا خاصا تھا ۔
ایوب عباسی کی شخصیت کا نمایاں ترین پہلو
ان کی شخصیت کا نمایاں ترین پہلو یہ تھا کہ ہر خاص و عام ان سے عزت آمیز محبت کرتا تھا ۔ ان سے محبت میں عجیب طرح کی مسرت اور سکون ملتا تھا گویا یہ حق ادا کرنے جیسا تھا ۔ یہ بات دوسری ہے کہ ایوب کے دل میں کسی صلے کی تمنا کا شائبہ تک نہ گزرا ۔
ایوب عباسی اور علیگڑھ کالج
وہ پرووسٹ کے دفتر میں ہونے کی وجہ سے اساتذہ ، طلباء اور دیگر ملازمین سے مسلسل رابطے میں رہتے تھے ۔ طلباء انھیں اپنا خیراندیش اور بزرگ خیال کرتے ۔ ہڑتال اور ہنگاموں کے وقت ایوب کی موجودگی کسی مرہم پٹی کرنے والے رضا کار کی سی ہوتی تھی ۔
ایوب عباسی اور رشتہ دار
ایوب اپنے حاسد رشتہ داروں کی وجہ سے دلگیر ضرور ہو جاتے تھے ۔ مصنف ان کی ڈھارس بندھاتے کہ لوگ اپنوں کی خوشحالی سے ناجائز جلن محسوس کرتے ہیں مگر اس شخص کی محنت کو فراموش کر دیتے ۔ ایوب عباسی اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو مصنف سے ملوانے میں فخر محسوس کرتے تھے اور اس کو اپنے لیے باعثِ عزت خیال کرتے تھے ۔ جو بات مصنف نے پسند کر لی وہ ایوب صاحب کے لیے مستند اور قابلِ عمل ہو جاتی ۔ ایک مرتبہ انہیں کہیں سے پتلون مل گئی انہوں نے مصنف کو بھی پتلون پہننے کا مشورہ دیا تاکہ پتلون پہننے کا سلیقہ جان سکیں ۔
ایوب عباسی کی طبعیت کا خراب ہونا
آخری دنوں میں ڈاکٹر عبادالرحمٰن کے ہاں انہوں نے کہا کہ “سردی لگ رہی ہے”۔ طبعیت نہ سنبھلی تو دوست انہیں گھر چھوڑ کر آئے ۔ صبح سے بخار دامن گیر ہوا ۔ دو تین ہفتے بعد ایک شام وہ حالتِ نزاع میں تھے ۔
ایوب عباسی کا وقت نزاع
یونیورسٹی کے اساتذہ ، طلباء اور ملازمین کا بے نظیر ہجوم ان کے مکان کے گرد جمع تھا تدفین کے بعد مولانا ابوبکر نے باآوازِ بلند پوچھا اگر ایوب مرحوم نے کسی کو تکلیف دی ہوتو اسے معاف کر دے ۔ہر شخص کا دل گواہ تھا کہ ایوب کی خدمات کا صلہ اس کے ذمہ ہمیشہ واجب لادا رہے گا۔