مجید امجد کی نظم “ایک کوہستانی سفر کے دوران میں” کا خلاصہ

نظم “ایک کوہستانی سفر کے دوران میں “ بارھویں جماعت  سرمایہ اردو ( اردولازمی ) کی آٹھویں نظم  ہے ۔ جس کے شاعر مجید امجد  ہیں اور یہ نظم ان  کے شعری مجموعے ” لوحِ دل “ سے لی گئی ہے ۔  بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن پنجاب کے تمام بورڈز کے سالانہ امتحانات میں سب سے زیادہ اسی  نظم  کا خلاصہ  آتا ہے ۔

شاعر: مجید امجد

ایک کوہستانی سفر کے دوران میں

خلاصہ

پہاڑ کی چوٹی پر سے ایک تنگ پگڈنڈی بل کھاتی ہوئی نیچے آتی ہے جس کے دونوں اطراف گہریاں کھائیاں ہیں ان ڈھلوانوں سے آگے ایک خطر ناک موڑ آتا ہے اس اندھے موڑ پر ایک بلند قامت پیڑ اپنی شاخیں نیچے جھکائے کھڑا ہے ایسا دیکھائی دیتا ہے کہ کوئی فرشتہ اپنے نوری پر پھیلائے کھڑا ہے اس پُر خطر موڑ سے خوف زرہ ، لڑکھڑاتے مسافر ، اس پیڑ کی شاخوں کو تھام کر آسانی  اور حفاظت کے ساتھ گزر جاتے ہیں ایک بزرگ پیڑ کی شاخوں کا کمزور سہارا کتنے ہی گرتے ہوؤں کو تھام لیتا ہے ۔ ــــــــــــــ یہ کمزور بازو ، یہ جھکی ہوئی شاخیں ، یہ خدائی خدمتگار  قابل ِ رشک ہیں ۔ افسوس !  صد افسوس ! ان متکبر لوگوں کی زندگی پر کہ ان کی اکڑی ہوئی گردنیں ، اس پیڑ کی جھکی شاخوں کے برابر بھی نہیں ہیں۔

0 thoughts on “مجید امجد کی نظم “ایک کوہستانی سفر کے دوران میں” کا خلاصہ”

Leave a Comment