تعلیم نسواں/essay on taleem e niswan in urdu

تعلیم نسواں سالِ دوئم کا سب سے اہم مضمون  ہے  50٪ تعداد خواتین طلبا کی ہوتی ہے اس لیے اس مضمون کے آنے کے سب سے زیادہ چانسز ہیں ۔ اس مضمون کو  حقوق نسواں ، علم نسواں , دور حاضر میں تعلیم نسواں کی اہمیت , اسلام میں عورتوں کی تعلیم , عورتوں کی دینی تعلیم , تعلیم نسواں کے فوائد اور اسلام میں تعلیم نسواں کی اہمیت کے طور پر بھی لکھنے کے لیے کہا جا سکتا ہے۔

تعلیم نسواں

جِس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن

کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر مُوت

بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہٴ زن

ہے عشق ومحبت کے لیے علم وہنر موت

 

تعلیم نسواں اور خواتین کی خواندگی کی اصطلاح  عورتوں،لڑکیوں اور بچیوں   کی تعلیم کے لیے استعمال ہوتی ہے  ۔تعلیم کی افادیت کی بات کی جائے تو قرآن مجید اور احادیثِ نبوی  میں  واضع اشارے ملتے ہیں تعلیم کا حصول مختلف طریقوں اور درجوں  میں حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ موضوع کے حوالے سے تعلیم کی چار  بڑی اقسام ہیں جو ہر مرد و زن  کے لیے ضروری ہے۔

  • دینی تعلیم

  • دنیاوی تعلیم

  • رسمی تعلیم

  • غیر رسمی تعلیم

خدا کو پہچاننے کے لیے بھی علم ضروری تھا۔اسی علم نے انسان کو اندھیرے سے نکالا۔نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا  آپ  ﷺ نے قرآن وسنت کے ذریعے ہماری زندگیوں کو سنوارا ۔اس سے علم کی افادیت کا پتا چلتا ہے۔اور یہی علم تھا جس کی وجہ سے انسانوں کو فرشتوں پر فو قیت دی گئی بقول اقبال:

جو پایہ علم سے پایا بشر نے

فرشتوں نے بھی وہ پایا نہ پایا

علم کی مزید دو قسمیں ہیں۔

  1. علم نافع
  2. علم غیر نافع

                اخلاقی  ، ذہنی  اور  جسمانی  تعلیم  کا مقصد  روح کی بالیدگی ، نفس کی پاکیزگی ،  سیرت وکردار کی بلندی اور ظا ہر و باطن کی طہارت و نفاست  ہوتا  ہے   ۔ قرآن مجید  میں بار بار آیا ہے کہ  عالم و جاہل کے درمیان فرق علم   کی  وجہ  سے  ہے   ۔قرآنِ مجید میں علم کا ذکر 80 بار  آیا ہے  اور علم سے مشتق شدہ الفاظ کا ذکر سینکڑوں  مرتبہ  آیا  ہے  ۔ قرآنِ مجید کے تقریبا اٹھتّر ہزار الفاظ میں سب سے پہلے جو  لفظ  اللہ تعالیٰ  نے رحمت  دو  عالم  ﷺ کے قلبِ مبارک پر نازل فرمایا ۔  وہ   اِقراء  ہے یعنی  پڑھ ۔ قرآنِ مجید  میں ارشاد ربانی  ہے:

اے نبی ﷺ !  کہہ دیجیے ( لوگوں کو ) کیا علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے برابر ہوسکتے ہیں ؟

نصیحت تُو وُہی حاصل کر پاتے  ہیں جو عقل والے  ہوتے  ہیں۔

                                                حدیثِ مبارکہ ہے:

طلب العلم فریضة علی کل مسلم

ترجمہ :علم کا سیکھنا ہرمسلمان پر فرض ہے

قرآن مجید کے بعداسلام میں سب سے مستند ذریعہ تعلیم احادیثِ مبارکہ ہیں اسلام میں  تعلیم نسواں (خواتین کی تعلیم ) کی اہمیت اس لیے بھی ضروری ہے کہ ماں کا کردار اولاد کی تربیت میں کلیدی ہوتا ہے قوم کے نونہالوں کی  صحیح اٹھان اور صالح نشو نما میں ماؤں کا کردار بہت اہم ہے ماں کی گود بچے کی اولین درس گا ہوتی ہے ۔علامہ محمد اقبال ؒ نے  عورت کو تمدن کی جڑ قرار دیا ہے۔

 

نبی کریم ﷺ نے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا تو ایک دن انھوں نے عورتوں  کے لیے وقف کیا۔عورتوں نے زیادہ تر علم  ازدواجِ مطہرات سے حاصل کیا جن کو نبی کریم  ﷺ دینی تعلیم سے آراستہ کیا کرتے تھے۔کیونکہ بقول شاعر

مردوں کی تعلیم ضروری تو ہے مگر

پڑھ جائے جو خاتون تو نسلیں سنوار دے 

معاشرتی زندگی میں بعض معاملات میں  مردوں کو  اور بعض باتوں میں  عورتوں کو برتری حاصل ہےکیونکہ اللہ تعالیٰ سے بہتر کوئی   اوراپنی  مخلوق کی ضرورت اور فطرت سے آگاہ نہیں ہو سکتا ۔   لیکن  مغربی تعلیم  نے   خود غرضی اور دنانیت کو فروغ دیا ہے  عورت کو حقِ مادری کے ساتھ فرائضِ پدری ادا کرنے پر مجبور کر دیا ہے  ۔ اور تہذیب مغرب نے جس طرح عورت کو اِس کے گھر سے زَبردستی اُٹھاکر بچوں سے دور فیکٹریوں  اور دفتروں میں لا بٹھایا  ہے  اس پراقبالؒ اہل مغرب کو  یوں شرمندہ کرتے ہیں۔

کوئی پوچھے حکیمِ یورپ سے

ہند و یُونان ہیں جس کے حلقہ بگُوش

کیا یہی ہے معاشرت کا کمال

مرد بے کار زن تہی آغوش

تاریخ بتاتی ہے کہ خواتین علم ِ تفسیر ، حدیث ، فقہ اور  دین میں مردوں سے کم نہیں رہیں  ۔حصُول علم پر عورت کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا ایک مرد کا ہے۔عورت کے تعلیم یافتہ ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ اگر  وہ علم حاصل کرے گی تو پورے گھرانے کے لیے کرے گی۔اور یہی بات  نپولین نے کہی تھی:

آپ مجھے تعلیم یافتہ مائیں دیں میں آپ کو بہترین قوم دوں گا۔

                قُرون ِاول سے دورِ جدید  تک  دنیا  کی تاریخ بتاتی ہے کہ مردوں کے شانہ بہ شانہ دخترانِ اسلام میں ایسی باکمال خواتین  نے بھی جنم لیا ہے جنہوں نے فرماں بردار بیٹی ، وفا شعار بیوی ،ایثار ومحبت کا علم اٹھائے بہن  کا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ علم وفضل میں  بھی نمایاں مقام حاصل کیا  ۔

                 اسلامی تاریخ  میں عورتوں کے اہل علم  ہونے  کے حوالے سے  جن صحابیات  کا ذکر آیا ہے اس  سر فہرست  میں  امہات المومنین  حضرت عائشہ و حضرت ام سلمہ  فقہ وحدیث کے ساتھ ساتھ   تفسیر میں بہت بلند مقام کی حامل خواتین تھیں  ۔  تحقیق و دِرایت کی بات کی جائے تو  ان کا مقام کامل سمجھا جاتا تھا  حضرت ِ اُم سلمہ کی بیٹی  زینب بنت ابوسلمہ جو نبی کریم ﷺ کی کی بہت  دلدادہ تھیں ان  کو ایک اعلیٰ درجے کی فقیہ اور عالمہ صحابیہ کا مقام حاصل  ہو اتھا ۔

پاکستان قوم کو دو نوبل پرائز ملے اور وہ دونوں  کے پیچھے  تعلیم کا  ہاتھ ہے ۔جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام کو فزکس کے شعبہ میں اور ملالہ یوسف زئی کو عورتوں کی تعلیم کے فروغ کے سلسلہ میں نوبل پرائز سے نوازا گیا۔اس کے علاوہ  ارفعہ کریم نے آئی ۔ٹی کے شعبے میں فقیدالمثال کامیابی حاصل کی۔

                 تعلیم کی افادیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔ملک و قوم کی ترقی میں علم کے زیور سے مرد و عورت  کا آراستہ ہونا ضروری ہے۔پاکستان کی آبادی کا تقریباً 50٪ حصہ عورتوں پر مشتمل ہے  اس لیے تعلیم نسواں کے بغیر ترقی کا خواب پورا کرنا نہ ممکن ہے۔ شکر الحمداللہ آج پاکستان میں عورتوں کی شرح خواندگی میں اضافہ اور معیار روزبروز بڑھتا جا رہا ہے۔آج ہر امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی اکثر لڑکیاں ہوتی ہیں۔

                مخلوط نظام تعلیم کی گنجائش صرف   سات آٹھ سال  تک کے بچوں   تک ہو سکتی ہے جس میں عمومی طور پر بچے جنسی اور صنفی جذبات سے عاری ہوتے ہیں  لیکن اس کے بعد اس میں بہت سی قباحتیں  ہیں ،اسلام میں کسی غیر محرم کے ساتھ بیٹھنے کی ممانعت کی گئی ہے۔اسلام مخلوط نظام تعلیم کے خلاف ہے  جو کہ مغرب کی فکر گستاخ کا عکاسی کرتا ہے جو کہ  خاتونِ مشرق کو لیلائے مغرب کی طرح ہوس پیشہ نگاہوں اور  لذت اندوزی کا سامان بنانے کی ہمہ گیر اور گھناؤنی سازش  کا حصہ ہے اور یہ عورت کی  چادرِ عصمت وعفت کو تار تار کرنے کی شیطانی چال ہےاسلام اس کی کبھی  حوصلہ افزائی نہیں کر سکتا ۔بقول اکبرؔ

حامدہ چمکی نہ تھی انگلش سے جب بے گانہ تھی

اب ہے شمع انجمن، پہلے چراغِ خانہ تھی

میری رائے میں لڑکوں اور لڑکیوں کا نصاب تعلیم بھی چند شعبوں  کے علاوہ   مثلاً   زبان و ادب ،  تاریخ ،  معلوماتِ عامہ ، جغرافیہ، ریاضی، جنرل سائنس  کےمختلف ہونا چاہیے ۔انجینرنگ کے اکثر شعبوں کے ساتھ ،عسکری تعلیم اور ٹیکنیکل تعلیم کی بجائے خواتین کو میڈیکل ، نرسنگ اور ٹیچنگ کی طرف آنا چاہیے۔کیونکہ اگر عورت گھر کا نظم و نسق سنبھال اور چلا  سکتی ہے تو ملک کی باگ ڈور سنبالنے میں پیچھے کیسے رہ سکتی ہے۔جس کی مثال   فاطمہ جناح ،رعنا لیاقت علی خان اور وزیرِ  اعظم پاکستان بینظیر بھٹو کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔

آخر پر عورت کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒ کا  شعر پیش کروں گا۔

وجودِ زن سے ہے تصویرِکائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِدروں

 

0 thoughts on “تعلیم نسواں/essay on taleem e niswan in urdu”

Leave a Comment