خواجہ میر دردؔ کی پہلی غزل کی تشریح اردو کے سمارٹ syllabus کے مطابق ؛پنجاب بھر کے انٹر میڈیٹ بورڈز کے طلباء کے لیے
شعر نمبر:3
دیدوادید جو ہو جائے ، غنیمت سمجھو
جوں شرر ورنہ ہم اے اہل نظر جاتے ہیں
بنیادی فلسفہ: زندگی کی بے ثباتی اصل موضوع ہے انسان شرر کی طرح نا پائیدار ہے ایسے میں احباب سے ملاقات غنیمت سے کم نہیں ہے۔
تشریح: خواجہ میر دردؔ نے انسانی زندگی کی بے ثباتی اور نا پائیداری کا موضوع باندھا ہے لیکن اس کی مثال شرر کی دی ہے جو کہ اپنی مختصر زندگی کے حوالے سے شعراء کا منظور ِ نظر استعارہ ہے ۔ خواجہ میر دردؔ نہ صرف خود صوفی ہیں بلکہ صوفیاء کے سر خیل بھی ہیں ۔ قناعت و توکل اور تسلیم و رضا کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کا قرب اور نظارہ اس کا ہمیشہ سے مطمع نظر رہا ہے ۔ لیکن حیات زندگی مثلِ شرر ہے یا شعلے کی بھڑک ہے جس کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا ۔ رضائے الہی کے لیے انسان مختلف راستے اختیار کرتا ہے سپاہی اپنے خون کا آخری قطرہ تک قربان کر کے رضائے الہی حاصل کرنا چاہتا ہے تو دوسری طرف ایک صوفی چلہ کشی اور ریاضت سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہےاسی طرح بادشاہ وقت عدل و انصاف سے اور زاہد پرہیز و تقویٰ سے رضائے الہی چاہتے ہے۔
کیا اعتبار ہستئی ناپائیدار کا
چشمک ہے برق کی کہ تبسم شرار کا
اس لیے اس چند روزہ اور عارضی زندگی میں دوست ، احباب اور اپنے پیاروں کو ملنے کے لیے جو لمحات ملتے ہیں ان کو غنیمت سمجھ کر پیار ، خلوص اور محبت کو فروغ دیا جائے ناکہ بغض و عناد اور کدورتوں کو پروان چڑھایا جائے۔ کیونکہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
بقول میر تقی میرؔ
آ جائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں
مہلت ہمیں بسان شرر کم بہت ہے یاں
اس شعر کو اگر غزل کی روایتی شاعری کے تناظر میں دیکھا جائے جہاں ایک عاشق اپنی مختصر زندگی میں اپنے محبوب کا قرب اور وصل کا متمنی ہوتا ہے لیکن اس کو اپنی عمر پر بھروسہ نہیں ہوتا اس لیے اس کی بے تابی اور بڑھ جاتی ہے کہ کسی بھی صورت محبوب سے جلد ملاقات کر سکے اس کی ایک صورت ہمیں کوہ طور پر نظر آتی ہے یہاں پر حضرت موسیؑ اپنے محبوب (خدا) کا جلوہ دیکھنے کے لیے گئے اور اس تجلی کے اثر سے حضرت موسی ؑبے ہوش ہو گئے تھے ۔ شاعر زندگی کی ترجیحات میں ملاقات کو بہت ضروری خیال کرتا ہے اس لیے محبوب سے ملاقات میں جلدی ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔
نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہربان آتے آتے
دوسرے مصرعِ میں انسان کو شرر سے تشبیہ دی ہے تاکہ اس کو ناپائیدار دیکھایا جا سکے ۔ شاعری زندگی کی ناپائیداری کو کبھی شرر ، کبھی حباب ، کبھی شعلہ ،کبھی بجلی اور کبھی کلی کی مسکراہٹ سے تشبیہ دیتی نظر آتی ہے ۔ ایک طرف اس کے آنے پر خوشیاں منائی جاتی ہیں اور دوسرے ہی لمحے اس کی موت کا ماتم کیا جا رہا ہوتا ہے اس لیے شاعر سمجھاتے ہوئے زندگی کو بیش بہا سرمایہ قرار دیتا ہے موت کے بعد یہ سب کچھ ختم ہو جائے گا۔
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
اور
جوں شرر ، اے ہستی بے بود یاں
بارے ہم بھی اپنی باری بھر چلے
السلام و علیکم ! سر براے مہربانی تمام اسباق کے خلاصہ جات اور تشریح بمہ سياق و سباق نظموں اور غزلیات کی تشریح بھی اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ کر دیں آپ کی بہت عنایت ہو گی ۔