خواجہ میر دردؔ کی پہلی غزل کی تشریح اردو کے سمارٹ syllabus کے مطابق ؛پنجاب بھر کے انٹر میڈیٹ بورڈز کے طلباء کے لیے
شعر نمبر:4
بے ہنر ، دشمنی اہل ہنر سے آکر
منھ پہ چرھتے تو ہیں ، پر جی سے اتر جاتے ہیں
بنیادی فلسفہ: بے ہنر لوگ،اہل ہنر لوگوں کی صلاحیتوں کی توہین کرکے خود ہی ذلیل وخوار ہو جاتے ہیں۔
تشریح: میر درد ؔ کے اس شعر میں ہندوستان کے اُس وقت کے حالات کی منظر کشی کی گئی ہے جب مغلیہ سلطنت اپنے زوال کے زمانے میں کبھی نادر شاہ ،کبھی احمد شاہ ابدالی اور کبھی مرہٹوں اور جاٹوں کے ستم کی آماج گاہ بنا ۔ بے ہنر اور ابن الوقت لوگوں نے اہل علم اور اہل فن لوگوں کو طاقت اور زور کے نشے میں اذیتوں کا نشانہ بنایا ۔ وقتی طور پر ابن الوقت لوگوں کی شہرت کا ڈنکا تو بجا لیکن تاریخ میں وہ سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل نہ ٹھہرے ۔ دنیا جو ایک میدانِ عمل کی طرح ہے اس میں اہل ہنر ، اہل نظر ، اہل علم اور صاحبِ کمال لوگ علم وفن میں بیش بہا خزانہ اپنی محنت اور ہنر مندی سے حاصل کر پاتے ہیں اور دوسری طرف بے ہنر لوگ ہمیشہ بغض ، حسد اور عداوت کی وجہ سے اہل ہنر لوگوں کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں اور آگے نکلنے کی کوشش میں جائز اور ناجائزکے ساتھ ساتھ حلال و حرام کی تمیز سے بھی عاری ہو جاتے ہیں۔اہل کمال آہستہ آہستہ گوشہ نشینی اختیار کر لیتے ہیں جس کا بھر پور فائدہ ابن الوقت ا ٹھاتے ہیں۔
اہل ہنر کا علم اور فن ہمیشہ اس خوشبو کی طرح کام کرتا ہے جس کی تاثیر کے متعلق عطار کو بتانے کی ضرورت نہیں رہتی ۔لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ہر دور میں ایسے لوگ رہے ہیں جو دماغ سے خالی ہوتے ہوئے بھی اعلٰی منصبوں پر فائز ہو جاتے ہیں اس دور کی پہچان کرنا بڑا آسان ہے رذائل اخلاق کا غلبہ پورے معا شرے پر ہو جاتا ہے برائی کی آمریت مستحکم ہو جاتی ہے ۔ اقراپروری ، فرقہ پرستی ، رشوت اور سفارش عام ہو جاتی ہے ۔ بے ہنر اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آتے ہیں جس سے وقتی ریلیف یا شہرت تو ملتی ہے جس سے ان کی گردنوں میں سریا آجاتا ہے جس سے تکبر،غرور اور اکڑ ان کی زندگی کا خاصہ بن جاتا ہے۔
میر انیس اہل ہنر لوگوں کے لیے کہتے ہیں
رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے
علامہ اقبال نے بھی اہل علم و فن کی تعریف کرتے ہوئے ان کو دنیا کے لیے صاحب ایجاد قرار دیا ہے اور ایسے لوگوں کے گرد زمانہ ہمیشہ طواف کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
جو عالمِ ایجاد میں ہے صاحبِ ایجاد
ہر دَور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
اور بے ہنر لوگوں کے بارے میں میر انیس کہتے ہیں
کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی
جو ظرف کہ خالی ہے صدا دیتا ہے
لیکن بے ہنر لوگوں کی یہ حقیقت بہت جلد آشکار ہو جاتی ہے اور وہ بہت جلد ذلیل و خوار ہو جاتے ہیں دنیا میں تضحیک کا باعث بنتے ہیں ۔ عارضی شہرت اور عزت کی ملمع کاری کا رنگ جلد اتر جاتا ہے ۔ اگر شاعری کی بات کی جائے یا نثر پاروں کی تو ہمارے شاعر اکثر یہ گلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کو جو اہمیت ، مقام اور عزت ملنی چاہیے تھی وہ نہ مل سکی۔میر تقی میرؔ سے لے کر عہدِجدید تک کے تمام ادیب اس بات کا گلہ کرتے نظر آتے ہیں۔
یوں پھریں اہلِ کمال آشفتہ حال افسوس ہے
اے کمال افسوس ہے تجھ پر کمال افسوس ہے
حفیظ جالندھری
حفیظؔ اہل زباں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
السلام و علیکم ! سر براے مہربانی تمام اسباق کے خلاصہ جات اور تشریح بمہ سياق و سباق نظموں اور غزلیات کی تشریح بھی اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ کر دیں آپ کی بہت عنایت ہو گی ۔