دو دوستوں کے درمیان علم کے فوائد پر مکالمہ
گورنمنٹ فرید بخش غوثیہ ڈگری سائنس کالج چک نمبر 333 گ۔ب فرید آباد
(سعد اور حماد ہم جماعت دوست ہیں ۔سعد، حماد کو ڈھونڈتے ہوئے لائبریری میں پہنچتا ہے وہاں حماد کو بڑے انہماک سے اخبار پڑھتے ہوئے دیکھتا ہے اور گفتگو کا آغاز ہوتا ہے۔)
حماد : السلامُ علیکم !
سعد : وعلیکم السلام!
حماد : دوست! میں کنٹین پر تمہارا انتظار کر رہا تھا اور تم ہو کہ لائبریری میں گھُسے بیٹھے ہو۔
سعد : آؤ دوست بیٹھو ! اخبار میں آرٹیکل ہی ایسا تھا کہ مجھے وقت کا معلوم ہی نہ ہو سکا۔
حماد : کیسا آرٹیکل؟
سعد : وہی آرٹیکل جس کا تذکرہ آج اردو کی کلاس میں پروفیسر سرفراز صاحب نے کیا تھا۔
حماد : ہاں ! کِیا تُو تھا لیکن اس آرٹیکل میں ایسی کون سی بات ہے جو تم اتنے انہماک سے پڑھ رہے ہو؟
سعد : اس آرٹیکل کو معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر عطا الرحمن نے لکھا ہے۔ جس کا موضوع” علم کے فوائد” ہے
حماد : اگر تم نے آرٹیکل پڑھ لیا ہے تو تم اس کے چیدہ چیدہ نکات مجھ سے بھی شیئر کر سکتے ہو ۔
سعد : جی ضرور ! ڈاکٹر صاحب نے اپنے آرٹیکل کا آغاز علم کے معنی اور اصطلاحی تعریف سے کیا ہے۔۔۔۔۔
حماد : تمہید ہی باندھو گے یا کچھ بتاؤ گے بھی؟
سعد : بتاتا ہوں صبر کرو۔ علم عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی جاننا ،شعور ، آگاہی یا واقفیت کے ہیں۔
حماد : اس میں علم کی افادیت کہاں سے آ گئی ؟
سعد : صبر سے سنو تو ! ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ علم ہی آدمی کوانسان بناتا ہے ۔علم سے معاشرے میں اخلاقیات کو فروغ ملتا ہے۔
حماد : وہ کیسے؟
سعد : بھائی ! اسی علم کی بنا پر انسان کو وہ مقام ملا جو فرشتوں کو بھی نہ مل سکا ۔بقول شاعر:
جو پایہ علم سے پایا بشر نے
فرشتوں نے بھی وہ پایہ نہ پایا
حماد : کیا اس آرٹیکل میں قرآن وحدیث سے بھی حوالے شامل کیے گئے ہیں ؟
سعد : جی ہاں! حضور اکرم ﷺ پر قرآن مجید کا نزول بھی “اقرا” لفظ سے ہوا جوعلم کی افادیت کے متعلق واضح اشارہ ہے۔
حماد : ایک قرانی آیت بھی تو ہے جو ہماری ہر دُعا میں شامل ہوتی ہے۔
سعد : ہاں ! یقیناً تم “قل رب زدنی علماً” کی طرف اشارہ کر رہے ہو ۔اس دُعا کی اہمیت اور فضیلت مثالی ہے۔
حماد : اس کے علاوہ کوئی اور حوالہ؟
سعد : اس کے علاوہ قرآن مجید کے الفاظ ہیں “کیا علم والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں “
حماد : بالکل صیح کہا تم نے۔ کوئی حدیث کا حوالہ بھی ہے اس آرٹیکل میں ؟
سعد : جی نبی کریم ﷺ سے منسوب ایک مشہور فرمان ہے : “علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔”
حماد : دنیاوی افادیت کے حوالے سے بھی یقیناً بہت کچھ لکھا ہو گا ؟
سعد : جی ! علم کی بدولت اچھے بُرے کی تمیز کی جا سکتی ہے عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے بھی علم ضروری ہے ۔
اور اس سے حساب کتاب اور معلومات تک رسائی بھی ممکن ہو جاتی ہے۔
حماد : مجھے بھی علامہ اقبال ؒ کا وہ شعر یاد آرہا ہے جو اکثر کلاس میں اردو کے استادِ محترم سنایا کرتے ہیں۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا
لیا جائے گا تم سے کام دنیا کی امامت کا
سعد : بہت خوب ! تم تو سخن شناس نکلے۔
حماد : بہت شکریہ
سعد : اس کے علاوہ انسانی تاریخ نے جتنی بھی ترقی کی ہے اس کی بنیاد علم پر ہی رکھی گئی ہے ۔فضاؤں میں خلائی سٹیشن پر مہینوں رہنا ہو یا سمندر کی گہرائیوں میں رہنا یہ سب علم کی بدولت ہی ممکن ہوا ہے ۔
حماد : صحیح کہا تم نے انسان نے پتھر کے زمانے سے گلوبل ویلج تک کا سفر علم کی بدولت ہی حاصل کیا۔صحافت ، کتابت اور اشاعت جیسے مشکل کام اب انسان گھر سے کر سکتا ہے۔
سعد : ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان نے علم کو ایک شمع کی مانند استعمال کر کے دنیا کے اندھیروں کو شکست دے دی ہے۔
حماد : علامہ اقبال ؒ کا ایک اور شعر میرے ذہن میں آیا ہے جو ہم بچپن سے بطورِ دعا گنگناتے رہے ہیں ۔۔۔۔۔
سعد : ہاں ہاں سناؤ!
حماد : زندگی ہو میری پروانے کی صورت یارب!
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب !
سعد : بہت خوب ! تمھارے ذوق شاعری کی داد دینی پڑے گی۔میں تو سمجھتا تھا کہ تمھیں کھیلنے کے علاوہ کچھ آتا ہی نہیں۔
حماد : شکریہ ! ہاں آج مجھے بھی محسوس ہوا ہے کہ اگر ہمارے پاس علم ہے تو وہ ہم شرمندگی سے بچ سکتے ہیں۔
سعد : شکر ہے پتھر میں جونک تو لگی ۔۔۔۔تمھیں علم کی اہمیت اور افادیت کا ادراک تو ہوا ۔
حماد : اب میں بھی کنٹین اور گراؤنڈ پر وقت ضائع کرنے کی بجائے تمھارے ساتھ لائبریری ہی آیا کروں گا۔اور تم مجھے اچھی اچھی کتابیں بھی تجویز کرنا تاکہ میں بھی تمھاری طرح علم دوست کہلاؤں۔
سعد : ٹھیک ہے۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ:
” بہترین صدقہ ہے کہ انسان علم سیکھے اور اپنے مسلمان بھائی کو سکھائے۔”
حماد : میں اخبارات اور کتابوں کو وقت کا ضیاع سمجھتا تھا۔کتاب کو دیکھ کر اتنی بوریت ہوتی تھی کہ بیان نہیں کر سکتا۔۔
سعد : اسی بات پر اقبال کا ایک ضرب المثل شعر بھی ہے
حماد : ارشاد!
سعد : علم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں
حماد : بہت خوب! چلو کلاس کا وقت ہو چکا ہے۔
سعد : (گھڑی کو دیکھتے ہوئے) ہاں جلدی چلو کہیں دیر نہ ہو جائے۔
(سعد اور حماد لائبریری سے نکل کر تیزی سے کلاس روم کی طرف لپکتے ہیں )
Good keep it up dear brother
السلام علیکم !سر پلییز دو دوستوں کے درمیان ہم نصابی سرگرمیوں پر مکالمہ اور جہیز ایک سماجی برائی پر مکالمہ لکھ دیں
😇میرا پیپرز ہونے والے ہیں پلیزسر
😇میرے پیپرز ہونے والے ہیں پلیزسر
copy option on kryn bhi
سر میرا لاہور سے تعلق ہے میں آپ کے اس ممکالمہ پر آپ کا شکر گزار ہوں