SEERAT UN NABI ESSAY IN URDU 2023
رحمت للعالمین ﷺ مضمون
رحمت دو عالم ﷺ مضمون
محسن انسانیت مضمون
حضور اکرم ﷺسرکارِ دو عالم ﷺ، رحمت اللعالمین ﷺحضرت محمدﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ” محسن انسانیت ‘‘ اور خیر البشر ﷺ بناکر دنیا میں معبوث فرمایا ۔ محسن انسانیت اور خیر البشر جیسے القاب کا شرف ایسا ہے جو کسی اور بنی نوع انسان کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔ رحمت للعالمین وہی عظیم ترین شخصیت قرار پائے گی جس نے امنِ عالم کے قیام و استحکام کےلیے خطبہ حجتہ الوداع کی صورت میں بہترین آئین اور منشور اور سنت کی صورت میں بہترین عملی نمونہ فراہم کیا ہو ۔ بقول شاعر:
حقیقت کی خبر دینے بشیر و نذیر آیا
شہنشاہی نے جس کے قدم چومے وہ فقیر آیا
مبارک ہو زمانے کو وہ ختم المرسلین آیا
سراپا کرم بن کے رحمت اللعالمین آیا
بے شک رحمت اللعالمین کا یہ لقب اسی شخصیت کو ملا جس نے بندوں کواللہ سے قریب تر کیا ، جس نے رعایا سے لے کر امراء تک ،بچوں سے لے کر جوانوں اور بزرگوں تک ، خواتین سے لے کر بچیوں تک ،امن و آتشی سے لے کر جنگ و جدل کے میدانوں تک ، رنج وغم اور راحت و سکون کے درمیان ہمیشہ انسانیت کی رہنمائی کی ہے جس کی تعلیم نے معاشرے کے اندر بھائی چارے کو فروغ دیا ، عداوت اور دشمنی کے بھی اصول و ضوابط تشکیل دئیے اور جانی دُشمنوں کو پروانۂ اَمن و امان اور عام معافی کا تحفہ عظیم عطا کیا ۔غیرمسلموں اور ذمیوں کو جان و مال، عزت و آبرو جیسے انسانی حقوقِ کی حفاظت میں مسلمانوں کے ہم پلّہ اور مساوی قرار دیا ہے ۔ایسی شخصیت کے اوصاف حمیدہ کو کہاں تک بیان کریں ۔ بقول شاعر:
خوشبو دو عالم میں ہے تری اے گلِ چیدہ
کس منھ سے بیاں ہوں ترے اوصافِ حمیدہ
رحمت للعالمین کا لقب پاکر جس نے تمام بنی نوع انسان کو انسانی ، لسانی ، قومی، نسلی ، قانونی اور مالی مساوات کا درس دیا ۔ جس نے کافروں ، یہودیوں، عیسائیوں، منافقوں اور تمام غیر مسلم مخالفین کے ساتھ مثالی رواداری اور عدل و انصاف کا اصول متعارف کروایا اور ان کے حقوق کی حفاظت کی ضمانت مسلم ریاست کے آئین و قانون میں رکھ دی ۔ جس نے انسانیت کے تمام طبقوں امیر و غریب ، عوام و خواص ، بوڑھوں و بچوں یا ، بیمار و تندرست ، شاہ و گدا ، یتیم و بے کس ، خواتین ،نیک و بد خصلت والوں ،محنت کش مزدور وں یا غلاموں کنیزوں کے ساتھ رواداری ،مساوات بھائی چارے اور غمگساری جیسے جذبوں کو فروغ دیا اور معاشرے کو اخلاق فاضلہ کا بہترین گلدستہ پیش کیا ۔بقول حفیظ تائب:
سر بہ سر مہرومروت ، سر بہ سر صدق و صفا
سر بہ سر لطف و عنایت ، سر بہ سر خیر البشر ﷺ
رحمت ِ دو عالم ﷺ اور سرورِ کونین ﷺکی حیاتِ مبارکہ امن ، رواداری، محبت ، مساوات و ہمدردی اور غم خواری و غم گساری کے ساتھ ساتھ عفو درگزر اور رحم و کرم کے واقعات سے معمور نظر آتی ہے۔ عرب کے رہنے والے عام انسانوں کی خدمت ، ان کی حاجت روائی کرنا اور اَشک جوئی کرنا سرکارِ دوعالمﷺ کا پسندیدہ مشغلہ تھا ۔حسن سلوک اور خدمتِ خلق چوں کہ دعوت کا راستہ ہموار کرتی ہیں اور دلوں کے بند دریچے کھولتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبوت سے پہلے نبی اکرمﷺ کو خدمت خلق اور حسن سلوک کی اعلیٰ تربیت دی۔ اور اس کی مثل پوری تاریخ میں ملنا مشکل ہے بقول شاعر :
لطف ہی لطف ہے اس رحمتِ عالم کی نظر
خیر ہی خیر ہیں شاہِ دو سَرا کے جلوے
خدمتِ خلق ہو یا حسن اخلاق کی بات کی جائے تو سرکارِ دوعالم ﷺ اور رحمت اللعالمین ﷺ نے رشتے داروں کا ہمیشہ خیال رکھا اور ہمیشہ ان کے ساتھ حسبِ مرتبہ معاملہ کیا اور ہمیشہ ان کے حقوق کی ادائیگی میں پیش پیش رہے۔ دوسری طرف یتیموں، بیواؤں اور بے نواؤں کی خبرگیری کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں ۔ ہمیشہ غیر مسلموں سے حسن سلوک سے پیش آئے اور مالی امداد کا معاملہ کیا ۔ بے روزگاروں کی مالی مدد اور مظلوموں ، مسافروں ، مصیبت زدہ لوگوں کی دست گیری فرمائی ۔ مکہ کی زندگی کا وہ دور جب آپ ﷺ کو نب کا منصب نہیں ملا تھا اس وقت بھی مکہ میں امن و امان کے قیام کے لیے کی جانے والی جدوجہد اور کوششوں میں آپﷺ نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔
ہوئی جن کی ذات پہ ہر خیرو برکت کی
انھیں خیر البشر ﷺ ، خیر الوریٰ کہیے،بجا کہیے
محسنِ انسانیتﷺ رحمت دو عالمﷺ حضرت محمدﷺ کی نبوت و رسالت کا امتیازی وصف ہے کہ اللہ رب العزت نے آپ ﷺکو تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر مبعوث فرمایا۔ اس حوالے سے ارشادِ ربانی ہے:
“اور ہم نے (اے رسولؐ) آپ کو تمام جہانوں کے لیے (سراپا) رحمت بناکر ہی بھیجا ہے۔ (سورۃ الانبیاء 105)
قرآن کریم کی یہ آیتِ کریمہ رحمت للّعالمین ﷺ کی شانِ رحمت، اور آپ ﷺ کے خصائل و شمائل اور اخلاق فاضلہ کا جلی عنوان ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اللہ تعالی ٰ کے تمام انبیاء ومرسلین ’’رحمت‘‘ تھے، مگر ’’رحمۃ للّعالمین‘‘ کا لقب صرف اور صرف رحمت ِ دو عالم سرورِ کونین ﷺکے حصہ میں آیا ۔ دیگر انبیاء کرام کی شانِ رحمت اپنی قوم، اپنے علاقے، اپنے دور اور اپنے زمانے تک ہی محدود تھی، جب کہ رحمتِ مجسم ، محسنِ انسانیت حضرت محمد ﷺکی رحمت و شفقت کا دائرہ کار ہر زمانے ،ہر عہد ، ہر قوم ،ہر نسل کے لیے ہے ۔ اس میں جملہ کائنات اور جملہ مخلوقات یہاں تک کہ تمام جہانوں اور دنیا و آخرت بھی شامل ہے ۔ بقول اقبال :
نگاہ عشق ومستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یسیں وہی طہٰ
رحمت للّعالمین ﷺکی صفتِ عام درگزر اور شانِ رحمت کی تجلّی عام اور بڑھ کر ہے۔ رحمت کے اس بیش بہا خزانے اور امت کے عظیم غم خوار کے دربار میں دوست و دشمن، شاہ و گدا ، اپنا پرایا، مرد و عورت، بوڑھے بچّے، کافر، مسلم، آقا و غلام، انسان ،حیوان، چرند پرند ، کائنات اور تمام جہانوں کا ذرّہ ذرّہ ہر ایک صنف ، ہر ہستی برابر کی حصّے دار ہے۔ آپﷺ کی شانِ رحمت تمام عالمین اور تمام جہانوں کے ساتھ ساتھ ہر عہدپر محیط ہے۔
امیرِ کاروانِ زیست امام الانبیاء تم ہو
خدا کے خاص پیغمبر محمد مصطفیٰ تم ہو
محسن انسانیت ﷺ کی نجی اور ذاتی زندگی کا مشاہدہ کریں تو معلوم ہوگا کہ کفار و مشرکین نے مکہ مکرمہ میں وہ کون سا ظلم تھا جو سرکارِ دوعال رحمت للعالمین ﷺ اور صحابۂ کرامؓ کے ساتھ روا نہ رکھا ہو، آپﷺ کو نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی اذیتیں بھی دی گئیں ۔ مکہ کی چالیس سالہ زندگی میں آپﷺ پر پتھروں اور سنگریزوں کی بارش کی گئی ۔ آپﷺ کو تکلیف دینے کے لیے راستے میں کانٹے بچھائے گئے ۔ حتیٰ کہ آپﷺ کا گلا گھونٹا کی بھی کوشش کی گئی ایک دفعہ تو کفار مکہ نے نماز کی حالت میں آپﷺ پر اُونٹ کی اوجھڑی رکھ دی تھی اس کے علاوہ آپﷺ کے قتل کے منصوبے تیار کیے جاتے رہے ۔ آپ ﷺ کو اڑھائی تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور رکھا گیا، جس میں آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے جانثاروں کو ببول کے پتے کھا کر بھی گزارا کرنا پڑا ۔ واقعہ طائف میں آپ ﷺکو سخت اذیت اور تکلیف پہنچائی گئی۔لیکن پھر بھی آپ ﷺ کی رحمت میں کوئی کمی نہ آئی بقول مولانا ظفر علی خان :
چوما ہے قدسیوں نے تیرے آستانے کو
تھامی ہے آسمان نے جھک کر تیری رکاب
شایاں ہے تجھ کو سرور کونین کا لقب
نازاں ہے تجھ پہ رحمت داریں کا خطاب
تاریخ دنیا اس بات کی گواہ و شاہد ہے کہ کہ لوگوں نے آپﷺ کو اتنا زدوکوب کیا کہ محسن انسانیت ﷺ کے نعلین مبارک خون سے لبریز ہوگئے، آپﷺ کو مکہ مکرمہ سے رات کے اندھیروں میں ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا ۔ آپﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں بھی سکون و اطمینان سے زندگی گزارنے نہیں دیا گیا، اور طرح طرح کی سازشیں اور یورشیں جاری رکھی گئیں ۔ مکہ کے کفاروں نے یہودیوں کے ساتھ مل کر رحمتِ دو عالمﷺ اور مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بندی کے تحت مہم چھیڑ دی گئی۔ لیکن اللہ نے اپنے حبیب ﷺ کو سرخرو کرنا ہی تھا اور پھر وہ موقع آہی گیا جب فتح مکہ کے موقع پر کفار مکہ کو موت اپنے سامنے نظر آ رہی تھی، انہیں خطرہ تھا کہ آج ان کی تکلیفوں اور ایذا رسانیوں کا کڑا انتقام لیا جائے گا۔لیکن
سرکارِ دوعالم رحمت اللعالمین ﷺ نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا:
” اے قریش کے لوگو! تمہیں کیا توقع ہے، اس وقت میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کروں گا؟
انہوں نے جواب دیا: ہم اچھی ہی اُمید رکھتے ہیں، آپﷺ کریم النفس اور شریف بھائی ہیں
اور کریم اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں، آپﷺ نے ارشاد فرمایا:’’میں تم سے وہی کہتا ہوں
جو یوسفؑ نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا، آج تم پر کوئی الزام نہیں،جائو تم سب آزاد ہو‘‘۔
مولانا شبلی نعمانی اپنی کتاب ” سیرت النبی ﷺ” میں رحمتِ دو عالم، حضرت محمد ﷺ کی سیرت طیبہ کےمتعلق لکھتے ہیں :
’حضور انور ﷺ کی ذات پاک تمام دنیا کے لیے رحمت بن کر آئی تھی
حضرت مسیح ؑنے کہا تھا کہ ’’میں امن کا شہزادہ ہوں‘‘
لیکن امن و سلامتی کے شہنشاہ ِاعظم حضرت محمد ﷺ کو خدا وند ازل ہی نے خطاب کیا!
’’وما ارسلنٰک الّا رحمۃ لّلعالمین‘‘
(محمدﷺ) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔
آپ ﷺکے خزانۂ عفو و درگزر میں دوست و دشمن، کافر و مسلم، بچے بوڑھے ، مردو عورت ، آقا و غلام، انسان و حیوان ہر ایک صنفِ ہستی برابر کی حصے دار تھی۔
آپﷺ نے فرمایا! “میں رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں۔”
آپ ﷺنے دنیا کو پیغام دیا:
’’ایک دوسرے سے بغض و حسد نہ کرو،
ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو،
اور اے خدا کے بندو! سب آپس میں بھائی بھائی بن جائو۔‘‘ (سیرت النبیﷺ)
کی محمداﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ خالق کائنات نے محسن انسانیت، رحمت دو عالم، شاہکار قدرت حضور سرور کونین ﷺ کو وہ بلند وبرتر مقام اور منصب عطا فرمایا ہے جس کا عقل نہ تو ادراک کر سکتی ہے اور نہ ہی زبان و قلم اسے بیان کر سکتے ہیں ۔
ارباب نظر کو کوئی ایسا نہ ملے گا
بندے تو ملیں گے پرمولا نہ ملے گا
تاریخ اگر ڈھونڈے گی ثانیء محمد
ثانی تو بڑی چیز ہے سایہ نہ ملے گا
آپ ﷺ کی عظمت ورفعت اور جاہ حشمت کے اقوال زرین ؛ آفتاب و ماہتاب الہامی کتابوں توریت، زبور، انجیل اور قرآن مجید کے علاوہ تمام صحف سماویہ وکتب الٰہیہ میں آسمان کے ستاروں کی طرح چمکتے دمکتے نظر آ تے ہیں اور دونوں جہانوں کی رہنمائی میں معاون و مدد گار ہیں ۔بقول اقبال
وہ دانائے سبل ختم الرسل ﷺمولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادئ سینا
رحمت للّعالمین ﷺکی زندگی کا بغور مشاہدہ کیا جائےتو وہ تمام کمالات جو تمام انبیائے کرائم ؑ میں الگ الگ تھے اﷲ تعالی نے ان سب کو رسول اﷲ ﷺ کی ذات اقدس میں میں جمع فرما دیا اور اس کے علاوہ ان کمالات اور خوبیوں سے بھی نوازا جس میں آپ کا کوئی شریک بھی نہیں ہے .بقول اقبال :
حُسنِ یُوسُف، دمِ عیسیٰ، یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری
رسول اﷲ ﷺ کی بعثت سے پہلے معاشرہ اخلاقی برائیوں کی دلدل میں دھنس چکا تھا ۔ انسانیت ذلیل ، حقیر اور رذیل تھی خود انسان کی نظر میں انسانیت کی کوئی قدر نہ تھی انسانی پستی و خواری کا یہ حال تھا کہ بہت سے حقیر و ذلیل حیوان اس کے مقابلے میں عزیز و محترم سمجھے جاتے تھے حیوانوں کی حفاظت اور نگہداشت کا اہتمام تو تھا مگر اانسان کا نہیں۔بقول شاعر:
نہاں ابر ظلمت میں تھا مہر انور اندھیرا تھا فاران کی چوٹیوں پر
چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ ہر اک لوٹ اور مار میں تھا یگانہ
فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ
وہ تھے قتل وغارت میں چالاک ایسے درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے
قصہ مختصر رسول اﷲ ﷺ ہی انسانیت کے وہ عظیم محسن اور شافع ہیں جنھوں نے انسانیت کو ثریٰ سے ثریا پر پہنچایا اور انسانیت کو اس کا حقیقی مقام و مرتبہ واپس دلایا۔ آدم کے خون کو ہی نہیں بلکہ اس کے ایک ایک عضو کو مکرم و محترم بنا دیا ۔ احترام انسانیت اور تکریم آدمیت کا وہ عظیم تصور دیا جس نے یہ واضح کر دیا کہ انسان سے بڑھ کر اس کائنات کے موجودات میں کوئی شئےنہیں جو اﷲ کے نزدیک اس سے زیادہ محترم و مکرم درجہ رکھتی ہو، یہ انسانیت پررسول اﷲ ﷺ کا ایسا عظیم احسان ہے کہ جس کو تاریخ اور انسانیت کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتی۔
خود نہ تھے جو راہ پہ اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحاکردیا
آپ ﷺ نے ہمیشہ انسان کے اس طبقے کا خاص خیا ل رکھا جس کا کوئی خیال نہیں کرتا تھا جس کا کوئی غم گسار و غم خوار نہیں ہوت تھا اجس کے حال زار پر کوئی اشک جوئی نہں کرتا تھا ۔ جس کے غم میں کوئی شریک نہیں ہوتا تھا جس سے کوئی محبت نہیں کرتا تھا جسے کوئی اپنے قریب نہیں کرتا تھا میری مراد غریبوں ، مسکینوں ، بیواؤں اور غلاموں کا وہ طبقہ تھا جس پر رحمت دو عالم ﷺ نے نظر ِ کرم فرمائی اور امیروں کے مال میں سے ان کے لیے حصے مقرر فرما دئیے ۔بقول حالیؔ
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
سرکار دو عالم ﷺ ابر باراں اور آفتاب عالم تاب کی حیثیت رکھتے ہیں آپ ﷺ کے رحمت و کرم کا ابر صرف عالم انسانیت پر ہی نہیں برسا بلکہ میدان حشر میں بھی اس کی رحمت کا ہم سے وعدہ ہے اور آپ ﷺ کا ابر رحمت و کرم سب پر جھوم جھوم کر برستا ہے۔ اور ہمیں بھی اقبال کے بقول زمانے میں عشقِ محمد سے اجالا کر دینا چاہیے۔
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد ﷺسے اجالا کر دے
4 thoughts on “محسن انسانیت مضمون /رحمت للعالمین مضمون”