شجرکاری کی اہمیت اور ضرورت پر مضمون 2020

شجر کاری کی ضرورت اور اہمیت

ایک دو پیڑ ہی سہی ،کوئي خیاباں نہ سہی

اپنی نسلوں کے لئے کچھ تو بچایا جائے

 

شجر عربی زبان  کا لفظ ہے جس کے معنی درخت یا پیڑ کے ہیں ۔کار کے معنی” کام کرنے کے ہیں” اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ شجرکاری سے مراد “درخت لگانے کا کام ” ہے جس کو انسان اپنے ہاتھوں سے انجام دیتا ہے  ۔عالم ِ ارواح سے ہی آدم اور درخت کا رشتہ چلا آ رہا ہے ۔حضرتِ آدم کو شجرِ ممنوعہ کا پھل کھانے کی وجہ سے ہی جنت سے بے دخل کیا گیا تھا ۔اس لیے درخت شروع ہی سے  انسان کے دوست ہیں ۔ شجر کاری نا صرف سنتِ رسول ﷺہے بلکہ ما حول کو خوبصورت اور دلکش بنانے کے ساتھ ساتھ  زمین کی زرخیزی میں معاون و مدگار ہے  ۔روح ارضی پر درخت زندگی کے ضامن ہیں۔

تم نے دیکھا ہے کبھی اک نظر شام کے بعد

کتنے چپ چاپ سے لگتے ہیں شجر شام کے بعد

شجر سے محبت انسانیت سے محبت ہے،کیونکہ یہ درخت آکسیجن   مہیا کرکےہماری زیست کا سامان پیدا کرتے ہیں۔ درختوں کی کٹائی اور کمی سے  گلوبل وارمنگ کے خطرات بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں  زیرِ زمین پانی کی سطح کم  ہو رہی ہے  اور پینے کے صاف پانی  کے نا پید ہونے کے باعث  پوری نوع انسانی شدید خطرات سے دور چار ہو نے جارہی  ہے  ۔درجہ حرارت کے بڑھنے سے پہاڑوں سے برف تیزی سے  پگھلنے لگی ہے  جس سے  سمندروں  کی سطح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے  اور مستقبل میں  طغیانی  سے شہروں  کے شہر  زیر آب  آنے کے خدشات  ظاہر کیے ہیں ۔اس لیے اس  امر کی اشد ضرورت ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں میں درختوں کی ضرورت اور اہمیت سے متعلق شعور کو بیدار کیا جائے اور ان کو آنے والے خطرات سے آگاہ کیا جائے۔

لیکن افسوس  صد افسوس  ہے پوری دنیا سے درختوں کی مسلسل کٹائی کی وجہ سے ماحولیاتی  آلودگی کے آسیب نے آج ہمیں جکڑ رکھا ہے  ماحولیاتی آلودگی  کے علاج کی دوا ،  یعنی جنگلات کی کٹائی انسان کی خود غرضی ومفاد پرستی کی تلوارسے بڑی بے دردی سے کی جا رہی ہے ۔  جنگلات کی بے رحمی سے کٹائی  کی صورتحال  اگر  یہی رہی تو ہمیں 2080ء تک ؛ سدابہار درختوں سے محروم ہونا پڑے گا  ۔  

اس راستے میں جب کوئی سایہ نہ پائے گا

یہ آخری درخت بہت یاد آئے گا

اقوام متحدہ کے ایک محتاط  جائزے کے مطابق ہر سال تقریبا تیرہ ملین ہیکٹر رقبے پر پھیلے جنگلات کا صفایا ہورہا ۔ جیسے جیسے  جنگلات کی کٹائی جاری ہے ویسے ویسے  سیلاب  ، آندھی اور طوفان اور دیگر آفات کی تعداد میں بھی بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور  اس کے ساتھ  انسان مہلک امراض اور وباؤں  کا شکار ہونے لگے ہیں۔

اس وقت پاکستان جس حد تک ماحولیاتی آلودگی اور موسمی تغیرات کا شکار ہے اس صورتحال میں تو شجرکاری مہم کو سال میں بارہ مہینےچلنا چاہئیے تاکہ جلد از جلد ان بڑھتے ہوئے ماحولیاتی مسائل پر قابو پایا جا سکے۔

بون چیلنج جو کہ ایک عالمی معاہدہ ہے جس کے تحت دنیا کے درجنوں ممالک نے 2020ء تک 150ملین ایکڑ اور 2030ء تک 350 ایکڑ رقبے پر جنگلات میں اضافے کا عیادہ کیا ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان بھی بون چیلنج معاہدے کا حصہ  ہے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کے لیے کوششوں میں اپنا اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے اور درختوں کو کاٹنے کے لیے حکومتی اجازت کو لازم قرار دینے کے حوالے سے قانون سازی بھی کی جا رہی ہے۔

کل رات جو ایندھن کے لئے کٹ کے گرا ہے

چڑیوں کو بہت پیار تھا اس بوڑھے شجر سے

مقام ِ افسوس ہے کہ گذشتہ ادوار میں شجرکاری کی طرف بالکل   توجہ نہیں دی گئی یہ  جانتے ہوئے بھی کہ درختوں کی موجودگی فضائی آلودگی کو ختم کرتی  ہے اور فضا میں آکسیجن کی مقدار میں اضافہ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں کمی کا باعث بنتی ہے  اور ہماری آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کی نوید بھی  ہے۔ اگر صرف سندھ اور بلوچستان کی زمین پر زیتون کے دو ملین درخت لگا دئیے جائیں جو کہ زیتون کی پیداوار کے لیے سب سے بہترین خطہ ہے تو پاکستان سپین کی زیتون کی بلین ڈالر انڈسڑی کا مقا بلہ کر سکتا ۔

ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کے بعد پاکستان خطے کے کم ترین جنگلات والا ملک ہے اس کا صرف 4 فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے حالانکہ اس کے پڑوس میں موجود ممالک میں ایران 7 فیصد،بھارت کا 23 فیصد، چین 22 فیصد اورروس کا 44 فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے۔ 

اللہ تعالیٰ نے شجرکاری  کی اہمیت اور افادیت کا ذکر  قرآن کریم  میں چودہ سو سال قبل ہی کر دیا تھا قرآن کریم میں مختلف حوالے سے مختلف  شجر کا ذکر آیا ہے  مثلاً کجھور ، زیتون اور بیری ۔  اللہ تعالیٰ نے درختوں کو  اپنی رحمت قرار  دیا ہے۔

حضورﷺ نے فرمایا ہے :

جو شخص درخت لگائے اس کے بعد اس کی  نگہداشت ،حفاظت اور نگرانی کرکے  مکمل پھل دار درخت کی

صورت میں بڑا کر دے  تو اس کے لیے بہت ثواب ہے۔ اور یہ صدقہ جاریہ بن جاتا ہے۔

حضورﷺ نے فرمایا :

” مسلمان کوئی درخت یا کھیتی لگائے، اور اس میں سے کوئی انسان، درندہ، پرندہ، یا چوپایہ کھائے

تو وہ اس کے لیے صدقہ بن جاتا ہے۔

حضورﷺ نے فرمایا :

“قیامت برپا ہورہی ہو، اور تمہیں درخت لگانے کی نیکی کا موقعہ مل جائے، تو فوراً نیکی کر ڈالو “۔

اسلامی نکتہ نظر  سے  کھیتوں اور پودوں کو برباد کرنا منافقین کا شیوہ ہے، اللہ تعالیٰ  نے قرآن مجید میں درختوں کو زمین کی زینت قرار دیا ہے۔ درختوں اور پودوں کی وجہ سے آسمان سے پانی برستا ہے ، درختوں سے جان داروں کو آکسیجن ملتی ہے، اور ہواؤں  میں اعتدال پیدا ہوتا ہے اور درجہ حرارت میں کمی آتی ہے۔بقول شاعر:

جس پیڑ کے سائے میں تھکن دور ہو میری

سوکھا ہی سہی وہ، مجھے درکار وہی ہے

 

چند درخت ایسے بھی ہیں کہ جن کا کوئی فائدہ نہیں اور ان کی کاشت پر پابندی لگنی چاہیے۔ مثلاً

  • ”سنبل“ کے درخت جو زمین سے ہزاروں گیلن پانی چوس لیتے ہیں۔ ماسوائے ماچس کی تیلیاں بنانے کے اور کوئی کام ان سے نہیں لیا جاتا۔
  • “سفیدہ” کے درخت سیم و تھور  کو تو ختم کرسکتے ہیں لیکن زرعی زمین کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں کیونکہ ایک  سفیدہ ایک دن میں 25 لیٹرپانی پیتا ہے۔لٰہذا جہاں زیرزمین پانی کم ہو اور فصلیں ہوں وہاں سفیدہ نہ لگائیں ۔
  • “الٹاشوخ  “کا درخت بھی  کوئی خاص افادیت کا حامل نہیں ہے اس کو عام طور پر گھروں میں؛  پارکوں میں؛  لان اور پبلک   مقامات اور سکولوں میں خوبصورتی کے لیے  استعمال کیا جاتا ہے ۔یہ بھی زیرزمین پانی کے لیے خطرناک ہے ۔
  • “کونو کارپس” کے درخت بھی نہ لگائےجائیں کیونکہ   یہ درخت  پولن الرجی کا باعث بنتے  ہیں۔

ماحولیاتی کثافتوں کو دور  کرنے کے لیے جنگلات کی صورت ،میں سرسبز اور شاداب ماحول کا ہونا بہت ضروری ہے۔موجودہ جدید ترین سائنس کے مطابق درخت لگانے کے 60مثبت فوائد دریافت کئے گئے ہیں۔ ان فوائد میں مندرجہ ذیل اہم ہیں۔

  • ایک درخت 18افراد کی ایک سال کی آکسیجن کی ضرورت پوری کرتا ہے۔

  • درختوں کی لکڑی سے غریب لوگوں کے ایندھن کے علاوہ انسانوں، حیوانوں اور پرندوں کی خوراک پوری ہوجاتی ہے۔

  • درخت لگانے سے سیلاب کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

  • درخت قحط اور خشک سالی سے بچاتے ہیں۔

  • درخت بادلوں کی تشکیل کا باعث بنتے ہیں۔

  • درخت ڈیپریشن اور ذہنی تناﺅ کا خطرہ کم کرتے ہیں۔

  • درخت دیہی علاقوں میں سائے کا ایک مستقل ذریعہ ہیں۔

  • درخت ماحول میں خوبصورتی پیدا کرتے ہیں

  • درخت آکسیجن فراہم کرنے کا واحد ذریعہ ہیں ۔

  • درخت درجۂ حرارت کو اعتدال و توازن میں رکھنے کے لیے معاون ومددگار بنتے ہیں ۔

  • درخت فضائی جراثیم کو اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں۔

  • درخت انسانوں اور حیوانات کی غذائی ضروریات کو پورا کرتے ہیں ۔

  • درخت چرندوں، پرندوں اور متعدد حیوانات کا مسکن بھی ہیں  ۔

  • درخت ادویات کا سب سے بڑا منبع ہیں  ۔

  • مختلف قسم کے درخت  ریگستان کو نخلستان میں بدل دیتے  ہیں

  • درختوں کی کمی کی وجہ سے ہمارے ہاں گرمی کی شدت اور دورانیے میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

  • درختوں کی کمی پہاڑوں پر لینڈ سلائیڈنگ کا  باعث بنی ہے   ۔

اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے

جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایا جائے

پاکستان میں شجرکاری کے لئے بہار اور برسات کا موسم موزوں ہے۔ جس کے دوران ملک بھر میں کروڑوں پودے لگائے جاتے ہیں ۔شجرکاری کی اس مہم میں ہر مکتبہ فکر اور ہر شعبہ زندگی کے لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔  ہر سال سرکاری سطح پر اربوں روپے کے پودے لگائے جاتے ہیں لیکن پودے لگانے کے بعد ان کی حفاظت نہ ہونے کی وجہ سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو پاتےاور 70 فیصد سے زائد پودے نشوونما ہی نہیں پا تے ۔

پچیس سےتیس سال پہلے میدان عرفات  کے ریتلے میدان میں نیم کے ہزاروں درخت لگائے گئے جو کہ ریتلی زمین کے لیے موزوں نہیں تھے لیکن  پھر بھی مٹی اور وافر پانی پہنچا کر ان درختوں کی آبیاری کی گئی  اور ایک پُر فضا مقام  بنا کر حجاج  کرام کے لیے آسانیاں پیدا کی گئیں ہیں۔  حکومت سعودیہ  نےان نیم کے درختوں کی پوری حفاظت کی  ہے ۔ اور ان کی دیکھ بھال کیلئے مستقل محکمہ تشکیل دیا ہوا ہے جو اپنا کام نہایت دیانتداری سے سر انجام دے رہا ہے ۔

سعودی عرب کی طرح ہمیں بھی شجرکاری سے پہلے ہمیں اپنے علاقے کی آب و ہوا سے روشناس ہونا ضروری ہے ۔تاکہ کما حقہ فائدہ اٹھایا جا سکے۔اس کے لیے میرے پاس چند تجاویز ہیں۔

  • جنوبی پنجاب میں اس کی خشک  آب و ہوا  کو برداشت کرنے والے پودے مثلا!  بیری، سوہانجنا، کیکر، کھجور اور آم  کے درخت لگائے جائیں ۔

  • وسطی پنجاب کا زیادہ تر علاقہ نہری ہے ان علاقوں میں  شیشم، جامن، توت، سمبل، پیپل، بکائن، ارجن اور لسوڑا لگایاجانا چاہئے۔

  • شمالی پنجاب کا علاقہ ٹھنڈا اور بارشوں کا مسکن ہے اس لیے ان علاقوں میں کچنار ، کیلا، اخروٹ، بادام اور دیودار کے درخت لگائے جائیں ۔

  • اسلام آباد ، سطح مرتفع اور خطہ پوٹھوہار کے لئے موزوں درخت دلو، کچنار، بیری اور چنار ہیں ۔

اب وقت آ چکا ہے کہ ہم انفرادی طور پر اس شجر کاری مہم میں حصہ لیں درخت نہ صرف لگائیں بلکہ اس کی حفاظت بھی کریں، اگر جنگلات میں اضافہ نہیں کرسکتے تو اپنے طور پر درختوں اور پودوں میں اضافہ کریں اپنے محلے اور گلی کوچوں کو سر سبز وشاداب بنائیں ۔ کیونکہ درخت ہی ہماری بقا کے لیے ضروری ہیں  بقول شاعر :

کوئی بھی رُت ہو چمن چھوڑ کر نہیں جاتے

چلے بھی جائیں پرندے ، شجر نہیں جاتے

 پاکستان میں  مقامی درخت لگائے جائیں تو زیادہ بہتر ہے ۔ پاکستان میں درخت لگانے کا بہترین وقت فروری مارچ اگست اور ستمبر کے مہینے ہیں اگر آپ بھی درخت لگانا چاہتے ہیں تو  درخت ہمیشہ ایک قطار میں لگائیں اور ان کا آپس کا فاصلہ دس سے پندرہ فٹ  ضرور ہونا چاہیے۔ گھر میں درخت لگاتے وقت دیوار سے دور لگائیں ۔اان تجاویز پر عمل کر کے ہم بھی شجرکاری مہم کو کامیاب بنا سکتے ہیں ۔ ۔ آئیں ہم سب مل کر کوشش کریں اور اپنے اپنے حصے کا چراغ روشن کریں اور اپنی ذمے داری پوری کریں اور اپنے ملک اور دنیا کو محفوظ بنائیں۔ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے تعلیمی نصاب میں درختوں کی اہمیت اور افادیت کو سلیبس کا حصہ بنانا پڑے گا   تاکہ وہ بھی ایک شجر سایہ دار کی مانند ہر شجر پر سایہ فگن ہوں اور ہمارا مستقبل تابناک ہو سکے۔ آمین 

ہم تو محروم ہیں سایوں کی رفاقت سے مگر

آنے والوں کے لئے پیڑ لگادیتے ہیں

25 thoughts on “شجرکاری کی اہمیت اور ضرورت پر مضمون 2020”

  1. ماشاءاللہ۔ بہت خوب صورت
    صدقہ جاریہ ہے۔ اللہ رب العزت آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین

    Reply
  2. یہ میرے لیے مفید ثابت ہوا ہے ۔۔۔۔
    آپ نے واقعی بہت اچھا لکھا ہے ۔۔۔

    Reply
  3. Sir thank you for all
    Plzz also post this
    دوست کے نام خط لکھیں جس میں اسے بتائیں کہ جسمانی.ورزش بیماریوں سے نجات کا ذریعہ ہے

    Reply
  4. Good job.
    I really appreciate your efforts its very hard to type that much urdu.
    I like to read but now I started reading urdu as well.
    Keep it up

    Reply
  5. اللہ تعالیٰ اپکو اس عمدہ کوشش پر اجر عظیم اور دونوں جہانوں کی فلاح عطا فرمائے

    Reply
  6. زبردست جناب محترم! اللہ کرے اور زور قلم زیادہ۔انٹر پارٹ ٹو کے مضامین:کشمیر ہماری شہ رگ،ماحولیاتی آلودگی ۔اسباب اور تدارکبھی لوڈ کردیں ۔اللہ تعالیٰ آپ کو اجرجزیل عطا فرمائے۔آمین

    Reply
  7. ماشاءاللہ،شکر ہے کہ اردو میں بھی طلباء کی رہنمائی کے لیے اچھا مواد ملا۔اللہ آپ کو اور علم وفراست سے نوازے۔آمین

    Reply

Leave a Comment