علامہ محمد اقبال ؒ کی نظم پیغام کا خلاصہ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن پنجاب کے تمام بورڈز کے سالانہ امتحانات میں وقتاً فوقتاً آتا رہتا ہے ۔
علامہ محمد اقبال ؒ کی نظم پیغام کا خلاصہ بہت اہم ہے ۔نظم “پیغام” گیارھویں جماعت سرمایہ اردو ( اردو لازمی ) کی نویں نظمہے ۔
شاعر: علامہ محمد اقبال ؒ۔
پیغام
خلاصہ
اے بندہ خاکی ! کسان کے محنت پسند روپ میں تو ہی مقصود ِکل ہے ۔ جو بیج تم بوتے ہو ، جس کھیت میں بوتے ہو ، جو بارش اس بیج کی آبیاری کرتی ہے اور جو کچھ بھی اس محنت کا ثمر ہے سب تری ہی ذات کے مختلف حوالے ہیں ۔ کارِ حیات میں کسی اور کی جستجو بھی لاحاصل ہے ۔ جبکہ تو خود مسافر ، خود راستہ ، خود راہنما اور خود منزل ہے ۔ بندہ مومن اس جہاں کے سمندر میں آپ ہی ملاح ، آپ سمندر ، آپ کشتی اور آپ ہی کنارا ہے ۔ دیارِ عشق میں مومن بیگانہ نہیں بلکہ اپنا ہے ۔ لیلیٰ اور مجنوں تو چہرہ اور عکس ہیں اور دشت ِ جنون ایک آئینہ ہے ۔ جو خود رونق مےخانہ ہو اس کا ساقی کے سامنے دستِ طلب دراز کرنا بےجا ہے ۔ باطل سے مرعوب نہ ہو کہ تو ہی خرمن ِ باطل کو جلانے والا شعلہ حق ہے ۔ اے کاش ! تو جان پائے کہ مومن اسی لیے پیدا کیا گیا ہے کہ نور توحید کا اتمام کرے۔