لاہور کا جغرافیہ سبق پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس نے لکھا ہے۔جس میں انھوں نے لاہور شہر کے مسائل اور بد انتظامی کا ذکر بڑے شگفتہ انداز میں کیا ہے۔
لاہور کا جغرافیہ
مصنف : پروفیسر احمد شاہ بُخاری پطرس
خلاصہ
مصنف سبق ” لاہور کا جغرافیہ ” کا آغاز تمہید سے کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ لاہور کو دریافت ہوئے ایک عرصہ ہو چکا ہے کُرے پر ڈھوندنے کی بجائے یہ دلیل ہی کافی ہے کہ لاہور ،لاہور ہی ہے ۔ اگر پھر بھی آپ کو نہیں ملتا تو آپ کی علم اور عقل دونوں ناقص ہیں ۔
محلِ وقوع کا بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ لاہور پنجاب میں ہے جو اب پنج آب کی بجائے ساڑھے چار دریاؤں کی سر زمین ہے ۔ آدھا دریا ” راوی ضعیف ” کہلاتا ہے جو اب چلنے کے قابل بھی نہیں رہا اس لیے شہر کے قریب دو پلوں کے نیچے ریت میں لیٹا رہتا ہے ۔
لاہور آنے کے لیے ایک راستہ پشاور سے آتا ہے جس کے ذریعے غوری اور غزنوی آئے اور اہل سیف کہلائے ۔ دوسرا راستہ دہلی سے آتا ہے جس کے ذریعے یو۔ پی کے حملہ آور آئے اور اہل قلم کہلائے ۔
حدود اربعہ کی بات کرتے ہوئے مصنف بتاتا ہے کہ کبھی لاہور کا بھی حدودِ اربعہ ہوا کرتا تھا لیکن طلبا کی سہولت کے لیے میونسپل کمیٹی نے اس کو منسوخ کر دیا ہے اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقعہ ہے اور ہو سکتا ہے مستقبل قریب میں لاہور ایک صوبے کا نام ہو اور پنجاب اس کا ایک شہر ہو۔
لاہور کی آب و ہوا کے متعلق ساری کی ساری روایات غلط ہیں ۔ حال ہی میں لاہور کے لوگوں نے میونسپل کمیٹی سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کو آب و ہوا دی جائے ۔کمیٹی نے اس پر ہمدردانہ غور کرنے کا کہا ہے ۔
فی الحال کمیٹی کے پاس صاف ہوا کی قلت ہے اس نے اعلان کیا ہے کہ ہوا کے استعمال میں کفایت شعاری سے کام لیں ۔ اور عام حالات میں گرد اور دھوئیں سے کام چلائیں جن کی تقسیم کے لیے تمام انتظامات کر لیے ہیں ۔
گھروں میں پانی پہنچانے کے لیے ایک اسکیم نظام سقے کے وقت سے چلی آتی ہےلیکن نظام کے لکھے گئے مسودات کو پڑھنے میں ابھی مزید کئی سال لگ سکتے ہیں ۔ فی الحال یہ انتظام کیا گیا ہے کہ لوگ بارش کے پانی سے کام چلائیں ۔چنانچہ بارش کے پانی کو شہر سے باہر نہیں نکلنے دیا جاتا اور اس ضمن میں کمیٹی کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی ہے تاہم نل لگوا دیے گئے ہیں جس میں ہائیڈروجن اور آکسیجن مل کر پانی بنائیں گی اس لیے کمیٹی نے ہدایت کر رکھی ہے کہ لوگ اپنے گھڑے نلوں کے نیچے رکھ دیں تاکہ پانی آنے پر کسی کی دل آزاری نہ ہو ۔
ذرائع آمدورفت کے لیے لاہور کے بازاروں میں سے جو سڑک بل کھاتی ہوئی گزرتی ہے یہ وہی سڑک ہے جو شیر شاہ سوری نے بنوائی تھی یہ اب آثار قدیمہ میں شمار ہوتی ہے ۔ احتراماً اب ان کو محفوظ کر لیا گیا ہے۔
اور آج بھی بہت سے لوگوں کے تخت یہاں الٹتے ہیں ۔ اور عظمتِ رفتہ کی یاد دلاتے ہیں تاکہ لوگ عبرت پکڑ یں ۔ کچھ لوگ زیادہ عبرت پکڑنے کے لیے ان تختوں کا تانگا بنا لیتے ہیں ان میں بناسپتی گھوڑے جوتے جاتے ہیں جو دیکھنے میں دم دار ستارے سے مشابہ ہوتے ہیں اور چلتے ہوئے ہمیشہ ضبطِ نفس سے کام لیتے ہیں ۔
قابلِ دید مقامات لاہور میں مشکل سے ہی نظر آتے ہیں ۔ کیونکہ ہر عمارت کی دیواریں دوہری بنائی جاتی ہیں ۔ پہلے اینٹوں اور چونے کی دیوار بنائی جاتی ہے پھر اس پر اشتہاروں کا پلستر کرتے رہتے ہیں ۔
بدلتے اشتہاروں سے عمارات پہچاننے میں جو مشکل پیش آتی تھی اس کے تدارک کے لیے کئی اشتہارات پکی سیاہی سے لکھے جانے لگے ہیں ۔ صنعت و حرفت میں بڑی صنعت رسالہ سازی اور انجمن سازی کی ہے ۔
ہر مربع انچ میں ایک انجمن موجود ہے صدر البتہ تھوڑے ہیں لہذا چند نفوس تمام انجمنوں کی صدارت کے فرائض سر انجام دیتے ہیں ۔ تقریر عموماً ایسی ہوتی ہے جو ہر جگہ اور محفل میں چل جائے ۔
لاہور کی مشہور پیداوار یہاں کے طلبا ہیں جو بکثرت پائے جانے کے باعث بیرونِ ملک برآمد بھی کیے جاتے ہیں طلبا کی اقسام میں جمالی طلبا سرفہرست ہیں یہ طلبا کی وہ قسم ہے جو پہلے درزی کے ہاں سے تیار ہوتے ہیں بعد میں نائی اور دھوبی کے پاس جاتے ہیں ۔ بعد میں ان کی نمائش کسی ہوٹل میں کی جاتی ہے۔
۔ جلالی طلبا کا شجرہ نسب جلال الدین اکبر سے ملتا ہے یہ ہندوستان کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں ہوٹلوں کی رونق یہ طلبا ہوسٹلوں کو اپنا نشیمن نہیں بناتے ۔
خیالی طلبا کا اولین وصف اخلاق اور آواگون اور جمہوریت پر اظہارِ خیال کرنا ہے یہ صحت جسمانی کو انسانی ارتقائی ترقی کا پہلا زینہ سمجھتے ہیں بے سرے ہونے کے ناطے گاتے ضرور ہیں ۔
خالی طلبا کتابوں ، مطالعہ اور امتحانات سے دور ہی رہتے ہیں جس معصومیت سے کالج آتے ہیں اسے آخر تک آلودہ نہیں ہونے دیتے۔
لاہور کے لوگ بہت خوش طبع ہیں۔
Please is chapter k liye quotations bta den