مولانا ظفر علی خاں سبق کا خلاصہ :مولانا ظفر علی خاں” سبق چراغ حسن حسرت کی کتاب “مردم ِ دیدہ” سے لیا گیا ہے۔”جس میں مختلف شخصیات کے خاکے پیش کیے گئے ہیں۔
سبق “مولانا ظفر علی خاں” بارھویں جماعت کا سب سے اہم سبق ہے۔ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن پنجاب کے تمام بورڈز میں سب سے اہم اور زیادہ آنے والا خلاصہ”مولانا ظفر علی خاں”کا ہی ہے۔
:خلاصہ کی تعریف
سبق کے تمام پیراگراف میں موجود بنیادی نکات کو مختصراً نثر میں بیان کرنا خلاصہ کہلاتا ہیں۔
- خلاصہ لکھتے ہوئے مندرجہ ذیل نکات کا خیال رکھنا چاہیے۔
-
سبق کا خلاصہ 2 سے 3 صفحات کے درمیان ہونا چاہیے
-
سبق کے خلاصے میں تمام نکات کی ترتیب اور تسلسل کو مدِ نظر رکھ کر خلاصہ لکھنا چاہیے۔
-
سبق کے خلاصہ میں غیر ضروری وضاحت اور تنقید سے پرہیز کرنا چاہیے۔
-
سبق کاخلاصہ 10 سے15 منٹ میں لکھنا ہوگا ۔
-
سبق کا خلاصہ 10نمبر کاہو گا( 1 نمبر مصنف کے نام کا ہوگا اور 9 نمبر کا خلاصہ لکھنا ہو گا
-
اسباق کے نام ہوں گے اور آپ کو ان دونوں میں سے کسی ایک کا خلاصہ لکھنا ہو گے۔
-
سال دوم کے پیپر میں چوتھا سوال سبق کے خلاصےکے بارے میں پوچھا جائے گا۔
-
خلاصہ
چراغ حسن حسرت اور مولانا ظفر علی خان کی ملاقات
مصنف کی مولانا ظفر علی خاں سے پہلی ملاقات دس سال قبل اخبار “نئی دنیا” کے دفتر چونا گلی میں ہوئی تھی کسی نے بتایا کہ جمیندار صاحب آئے ہیں ۔ اتنے میں مولانا شایق احمد عثمانی جو سامنے اسی گلی میں رہائش پذیر تھے تشریف لائے اور بولے جمیندار صاحب یعنی مولانا ظفر علی خان تشریف لائے ہیں ۔ صدیق انصاری یہ سن کر پان کلے میں دبا کر بیٹھ گئے مصنف ان دنوں کولمبس اور سند باد جہازی کے قلمی ناموں سے “نئی دنیا” میں فکاہیہ کالم لکھا کرتے تھے ۔ سال بھر کے اندر یہ اخبار اپنی زندگی پوری کرچکا تھا ۔
مولانا ظفر علی خان کی شخصیت
مصنف کا خیال تھا کہ مولانا صاحب جو اتنے مایہ ناز سیاسی راہنما ہیں بڑی توند کے مالک ہوں گے ۔ کیونکہ عام عالم اگر بڑی توند کے مالک ہیں تو مولانا سب سے بڑی توند کے مالک ہوں گے لیکن مصنف کی حیرت کی انتہا اس وقت نہ رہی جب مولانا صاحب بغیر توند اور عمامے کے تشریف لائے ۔ آتے ہی سائمن کمیشن پر بات چل نکلی ۔ مولانا شایق کانگرس سے علیحدہ ہو چکے تھے اس لیے سیاست کے دو دیوانوں کی خوب گزری ۔ مصنف مولانا کی سیاسی شخصیت سے زیادہ ان کی ادبی شخصیت میں دلچسپی رکھتے تھے لیکن ان کی لاکھ کوشش کے باوجود بات سیاست کے اکھاڑے سے باہر نہ آسکی ۔
چراغ حسن حسرت کا دورہ لاہور اور مولانا ظفر علی خاں سے ملاقات
مصنف کلکتہ سے لاہور آئے تو چند دن مولانا کے اخبار “زمیندار” کے دفتر میں قیام پذیر رہے ۔ ایک رات مولانا نے منہ اندھیرے ہی انھیں جگایا اور اپنے ساتھ سیر پر جانے کی دعوت دی ۔ مصنف کے ایک دوست قاضی احسان اللہ نے انہیں پہلے ہی خبردار کردیا تھا کہ اگر مولانا سیر کے لیے کہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا سفر نہر کے کنارے میلوں دوڑنےسے شروع ہوگا اس کے بعد ڈنٹر پیلنا اور پھر نماز فجر کی ادائیگی پر ختم ہو گا ۔ لہذا مصنف نے بیمار ہونے کا عذر پیش کیا اور مولانا چند مفید مشورے دے کر اکیلے ہی سیر پر روانہ ہوگئے ۔ اس کے بعد مصنف نے اخبار ” زمیندار”کے دفتر میں رہنے سے توبہ کر لی ۔
مولانا ظفر علی خان کے شوق
مولانا کی عادات میں سیر کے ساتھ پیراکی ، کشتی اور نیزہ بازی شامل تھیں ۔
مولانا ظفر علی خاں کی شاعری
ایک صاحب مولانا کو زبان دان تو مانتے تھے مگر شاعری کے قائل نہ تھے۔ کہتے تھے مولانا کی شاعری عشق ومحبت کی لطافت سے خالی ہے۔بالآخر مصنف نے یہ شعر سنایا تو نادم ہوئے۔
سلیقہ مے کشی کا ہوتو کر سکتی ہے محفل میں
نگاہِ مستِ ساقی مفلسی کا اعتبار اب بھی
مولانا ، شعری تخلیق کے کربِ لطیف میں ایک آدھ گھنٹہ ہی رہتے تھے اور ہمیشہ بامراد رہتے ۔ عام شاعر یہ کام چلہ کشی کر کے کرتے تھے ۔ ذرا شور ہوا اور ان کا عنقائے خیال ہوا ہو گیا ۔ مولانا نطم اور نثر میں ایک سی روانی کے مالک تھے ۔ دوسروں کے اشعار پر داد اور انعام دل کھول کر دیتے تھے ۔
زمیندار اخبار کی اشاعت
وہ اخبار کی زبان اور کتابت پر کوئی سمجھوتا نہیں کرتے تھے ۔ جب تک دفتر میں ہوتے سب کی جان مُٹھی میں ہوتی ۔ کتابت اور املاء کی غلطیاں زیادہ ہوتیں تو برملا کہتے کہ اخبار کو بند کر دو ۔ میں ایسا اخبار نہیں نکالنا چاہتا۔