میرا نصب العین مضمون 2021

“میرا نصب العین  ” مضمون  کی اہمیت سال دوم  کے لیے  بڑھ جاتی ہے کیونکہ  اکثر طلباء اس  کلاس کے بعد پروفیشنل تعلیم کی طرف چلے جاتے ہیں ۔زندگی  میں دو نصب العین کو مدِ نظر رکھا جا سکتا ہے۔ اسی تناظر “میرا نصب العین” میں یہ مضمون لکھا گیا ہے ۔اس کو زندگی کا نصب العین,ہمارا نصب العین,میرا نصب العین ,نصب العین جیسے موضوعات کے تحت بھی لکھا جا سکتا ہے۔

میرا نصب العین

میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی

میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی

کائنات  میں اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی چیز بیکار اور بغیر مقصد کے پیدا نہیں کی۔انسان کی تخلیق احسن تقویم  ہوئی ہے۔اس کی زندگی کے مقاصد کا تعین قرآن مجید میں  کر دیا گیا ہے ۔ارشاد ربانی ہے:

تر جمہ : “(اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) بے شک ہم نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی  ہی عبادت کے لیے پیدا فرمایا”

اسلام  نے تمام  شعبہ ہائے  زندگی کےلیے ہدیات اور مقاصد کا تعین کر دیا  ہے  ۔  لفظ مقصد اور نصب العین میں تھوڑا سا فرق ہے ۔  کسی چیز  یا  بات کے لیے کیے جانے والا کام مقصد کہلاتا ہے  اور زندگی کے سب سے اہم مقصد کو نصب العین کہلاتا  ہے  ۔ مثلاً تجارت اور کاروبار کا  بظاہر مقصد دولت کمانا  اور زندگی کی  آسائشوں کا  حصول  ہے ۔  لیکن اس کا اعلیٰ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تحت حلال طریقے سے روزی کمائیں ؛ والدین اور  بیوی بچوں کے حقوق پورے کیے جائیں  اس کے بعد رشتے داروں ،  غرباء اور مساکین کا بھی  خیال رکھیں جس کا  حکم اللہ تعالیٰ نے  دیا ہے یہ تجارت کا مقصد اعلیٰ ہے جسے نصب العین  بھی کہتے ہیں ۔مسلمان  کا نصب العین صرف اور صرف اطاعت الٰہی  ہونا چاہیے۔

میں سمجھتا ہوں انسان کا بے مقصد زندگی  ایک خواب ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں یا ایک سفر ہے جس کی کوئی منزل نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں خود انسان سے پوچھا،جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بے کار پیدا کیا۔

اسی لیے میں  نے بھی اپنی زندگی کا  نصب العین  کا تعین کر لیا ہے ۔میری زندگی  دو  مقاصد کے گرد گھومتی  ہے۔

1: اللہ کی رضا کے مطابق دینِ اسلام کی سر بلندی

2: وطنِ عزیز پاکستان کی حفاظت اور ترقی

میری زندگی کا مقصد دین اسلام کی سربلندی و سرفرازی ہے بحیثیت مسلمان میری زندگی کا سب سے بڑا نصب العین اسلامی تعلیمات کا فروغ ہے۔اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے قرآن و سنت کی پیروی اور رضائے الہی کو سب  پر فوقیت دینا  بھی اس میں شامل ہے ۔قرآن مجید  میں ارشاد ربانی ہے :

’’ اے ایمان والو! اسلام میں پُورے پُورے داخل ہو جاؤ ‘‘

پوری طرح مذہب میں  داخل ہونے کا مطلب ہے کہ ہم اپنی   زندگی کے تما م پہلوؤں  اور  تقاضوں  میں  اِحکاماتِ شریعت اور احکاماتِ دینِ سے غافل نہ ہونے پائیں  -نبی کریم ﷺ نے فرمایا  کہ دو چیزیں ایسی ہیں جن کو اپنی زندگی میں کبھی نہیں چھوڑنا۔

کِتَابُ اللّٰہِ وَسُنَّتِ رَسُوْل

ترجمہ: اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے

 

آج کے نوجوانوں کو کبھی سوشل ازم  ، کبھی کیمونزم  اور کبھی  سیکولرازم  کی چکا چوند روشنیوں  سے دھوکا  دیا جا رہا ہے جب کہ وہ جانتے ہی نہیں  کہ  دین اسلام  عظمت و صداقت میں سب  ادیان سے  بہتر ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کیلئے بہترین طرزِ حیات  ،    بُودوباش ،قانون و آئین  ،  بہترین اُصول ، نظامِ زندگی اور بہترین ضابطۂ حیات کے لیے  دین اسلام کو پسند فرمایا ہے ۔

 

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا

’’ آج میں نے تُمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تُم پر اپنی نعمت پوری کر دی

اور تُمہارے لیے اسلام کو بطورِ دین ( مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا‘‘

میں چاہتا ہوں کہ اپنی  ساری زندگی دینی تعلیمات کے تحت گزاروں۔ مادیت پرستی اور فریبِ دنیا کے سحر سے بچوں  اور ان لوگوں سے دور رہوں جنہوں نے مذہب کو ایک کھیل تماشا بنا کرمذہب کو نجی اور انفرادی معاملہ بناکر خود کو  ناپاکیوں کے سپرد کر دیا ہے۔اللہ تعالی نے بھی ایسے لوگوں کو وعید سنائی ہے کہ جس طرح انھوں نے دنیا میں میری آیتوں سے غفلت برتی اسی طرح روزِ قیامت میں بھی ان کو بھول جاؤں گا۔

 

میں کوشش کرتا ہوں کہ تمام کام جو حقوق اللہ یا حقوق العباد    کے ہوں ان کو  اللہ تبارک وتعالیٰ کے مرتّب کردہ اصولوں کے مطابق  کروں ۔علم ہو یا عمل ، تجارت ہو یامعیشت ،نظام زندگی ہو   یا عقائد کی بات   بہترین راستہ قرآن و سنت میں ہی ہے ۔ مجھے افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ آج  ہمارے بہت سے نوجوان تہذیب مغرب کے دلدادہ ہیں ۔ایسے نوجوانوں کو اقبال نے  پیغام دیا ہے کہ :

اپنی ملّت پَر قیِاس اقوامِ مَغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسُولِ ہاشمی

اُن کی جمعیّت کا ہے مُلک و نَسب پہ انحصار

قُوّتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیّت تیری

دامنِ دین ہاتھ سے چھُوٹا تو جمعیّت کہاں؟

اور جمعیّت ہوئی رُخصَت تو مِلَّت بھی گئی

میری زندگی کا دوسرا مقصد   پاکستان ہے۔ جو مجھے دل و جان سے پیارا ہے میں اپنی زندگی کا ہر پل اپنے ملک کے استحکام اور مضبوطی کے لیے صرف کرنا چاہتا ہوں ۔میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں آپس کے جھگڑوں سے نکل کر ملک و قوم کی بقا ،سلامتی،ترقی اور خوشحالی کے لیے آگے آنا چاہیے۔بحیثیت طالب علم ہم  سب پر سے زیادہ  ذمہ داری آتی ہے کہ ہم اپنے ملک کی خوشحالی کے لیے دن رات ایک کر دیں کیونکہ نوجوان ہی ہر قوم کا ہراول دستہ ہوتے ہیں
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ :

آؤ اپنے جِسم چُن دیں اینٹ پتھر کی طرح

بے درو دیوار ہے لیکن یہ  گھر اپنا تُو ہے

بحیثیت ِ  قوم ملکی ترقی کی راہ میں   حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے متفق و متحد ہو کر  مشترکہ کاوشیں کرنا  ہوں گی اس کے لیے ہمیں تن  من دھن  قربان کر نا چاہیے اور ہمارا یہ بھی  فرض ہے کہ ہم سب زندگی میں جہاں بھی ہوں ، جیسے بھی ہوں، جو کام بھی کر رہے ہوں ، جس حالت میں بھی ہوں ہمیں اپنا نصب العین یاد رکھنا  چاہئے کیونکہ جو اپنے نصب العین کو بھول جاتے ہیں  ناکامی اور ذلت ان کا مقدر بن جاتی ہے ۔

جسم و جان کو جلانا پڑے گا تمھیں
یوں اجالے ملیں گے نہ خیرات میں

نصب العین کے حصول اور ملک و قوم  کی  بقاء  ،  سلامتی  ،  ترقی  اور خوشحالی   کے حصول کے لئے میرے پاس چند تجاویز ہیں۔

اتفاق و اتحاد کا فروغ:

”ملک و قوم کی بقاء ، سلامتی ، ترقی اور خوشحالی “ کے حصول کے لئے  پوری قوم کو متحد اور متفق ہو کر وطن کے لئے کام کرنا چاہئے اس سلسلے میں ہم سب پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے کہ ہر پاکستانی  اپنی حیثیت ، ہمت اور طاقت کے مطابق اپنا اپنا کردار ادا کرے۔
افراد کے ہاتھو ں میں ہے ملت کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

فرقہ واریت اور تعصب کا خاتمہ:

علاقائی ، لسانی ، نسلی اور مذہبی تعصبات اور فرقہ واریت پھیلا نے والوں کا  خاتمہ کریں اس کے لیے نوجوانوں کو ہراول دستہ بننا پڑے گا۔اخوت ، بھائی چارے ، رواداری ، صبر و تحمل اور برداشت جیسے اعلی اقدار کو فروغ دینا ہوگا۔ ذات پات رنگ و نسل کے تفاوت  کوختم کر نا ہو گا اور صرف اس  آدمی کو لائق تعظیم سمجھا جانا چاہیے جس کے اندر حقیقی انسانیت اور ابدیت موجود ہو۔

گھُن کی صورت یہ تعصب تجھے کھا جائے گا

اپنی ہر سوچ کو محسن نہ علاقائی کر

خود اعتمادی اور خود انحصاری:

دنیا میں ایک عظیم قوم بننے کے لیے خود انحصاری اور خود اعتمادی کو پیدا کرنا پڑے گا۔سہاروں اور بیساکھیوں کی بجائے محنت کو شعار بنانا چاہیے۔ غیرت مند قومیں دوسروں سے کبھی  مدد نہیں لیتی۔ وہ  اپنی مدد آپ کے تحت رات دن محنت کر کے وسائل کا درست اور پورا پورا استعمال کریتی ہیں  ۔

سہارا جو کسی کا ڈھونڈتے ہیں بحرِ ہستی میں

سفینہ ایسے لوگوں کا ہمیشہ ڈوب جاتا ہے

مضمون کے اختتام پر میں اپنے نصب العین کے حصول کے لیے ہر طرح کی کاوش کروں گا  اور اپنے پیارے وطن اور دینِ اسلام  کو دنیا میں ایک عظیم ترین دین اور ملک بنانے کے لئے بھرپور کردار ادا کروں گا  ۔اور میری دعا ہے۔

خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

 

4 thoughts on “میرا نصب العین مضمون 2021”

Leave a Comment