میر تقی میر کی پہلی غزل کے دوسرے شعر کی تشریح پنجاب بھر کے انٹر میڈیٹ بورڈز کے سلیبس کے مطابق
شعر نمبر 2
آفاق کی منزل سے گیا ، کون سلامت
اسباب لُٹا راہ میں ، یاں ہر سفری کا
بنیادی فلسفہ: متاعِ دنیا کو ؛ انسان سفرِِآخرت پر نہیں لے کے جا سکتا۔
تشریح : “شہنشاہِ غزل ” میر تقی میرؔ دنیا کی بے ثباتی ، ناپائیداری اور فنا پذیری کو موضوعِ سخن بناتے ہوئے پہلے مصرعے میں استفہامیہ اور ناصحانہ انداز اپناتے ہوئےایک عالمگیر سچائی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ موت برحق ہے اور اسباب جہاں کو فنا پذیری حاصل ہے کیونکہ دنیا سے موت کا سفر تنہا ہی کیا جائے گا ۔ جو بھی انسان اس دنیا میں آج مال و دولت کا پجاری نظر آتا ہے دنیا کی متاع کو حاصل کرنے کے لیے جائز اور نا جائز ذرائع کا استعمال کرتا ہے ۔ وہ نقصان میں ہے ۔
گر لاکھ برس جئیے تو پھر مرنا ہے
پیمانہ عمر اک دن بھرنا ہے
انسان فطرتاً لالچی ہے جب وہ اس دنیا کو چھوڑتا ہے تو اس کا نام ، اس کا کام ، اس کی شہرت ، اس کی طاقت اور اس کا مال و اسباب دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔کیونکہ وہ عبادت ، ریاضت اور نیک کاموں سے کوسوں دور رہتا ہے شاعر کے نزدیک دنیا ایک مسافر خانہ ہے اور جو سفر آخرت انسان کو درپیش ہے اس میں وہ دنیاوی مال و اسباب ساتھ نہیں لے کے جا سکتا ۔ شاعر کے نزدیک انسان اپنی آخرت کی فکر بھول کر دنیا کی رنگینیوں میں کھو گیا ہے ۔ جو زادِ راہ نیکیوں کی صورت میں ہونا چاہیے تھا وہ دنیاوی مال و اسباب کی صورت میں اس کی روح کا بوجھ بن جاتا ہے ۔جو اس کی تکالیف میں اضافے کا سبب بنتا ہے ۔بقول شاعر
چلتے ہوئے ہرگز کچھ کام نہ آ سکے گا
ہمراہ اسباب جہاں نہ جا سکے گا
:
ﻛُﻞُّ ﻧَﻔْﺲٍ ﺫَﺁﺋِﻘَﺔُ ﺍﻟْﻤَﻮْﺕِ۔
” ہر جان موت کا ذائقہ چکھنے والی ہے۔ ” سورۃ آل عمران
سکندر جب گیا دنیا سے
دونوں ہاتھ خالی تھے
تاریخ شاہد ہے کہ نمرودیت اور شدادیت اور فرعونیت کے روپ میں تکبر کرنے والوں اور مال و اسباب اکھٹا کرنے والوں کا کیا انجام ہوا ۔یہ تمام لوگ رہتی دنیا کے لیے عبرت کی مثال بن گئےہیں ۔موت نے آکر ان کے تمام وعدوں کو جھٹلا دیا ہے۔
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
نہ گورِسکندر ہے نہ قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
jis sar ko garur aj hai yan tajawari ka
kal us pe yahin shor hai phir nauhagari ka
afaq ki manzil se gaya kaun salamat
asbab luta rah mein yan ham safri ka
zindan mein bhi shorish na gai apne junun ki
ab sang madawa hai is ashuftasari ka
har zakhm-e-jigar dawar-e-mahshar se hamara
insaf talab hai teri bedadgari ka
is rang se jhamke hai palak par ke kahe tu
tukra hai mera ashk aqiq-e-jigari ka
le sans bhi nazuk ke ahista hai bahut kam
afaq ki is karagah-e-shishagari ka
tuk mir-e-jigar-sokhta ki jald khabar le
kya yar bharosa hai chirag-e-sahri ka