نعتیہ مشاعرے کی روداد
“انجمن غلامانِ مصطفیٰ ﷺ” کے زیرِ اہتمام گورنمنٹ گریجوایٹ کالج پیرمحل میں یکم رمضان المبارک کو صبح 9 بجے کالج ہا ل میں نعتیہ مشاعرے کا انعقاد ہوا۔ جس کی صدارت کے لیے عظیم نعت گو شاعر جناب عبد العزیز خالد کو مدعو کیا گیا۔ اس مشاعرے میں پاکستان کے بہت سے نامور نعت گو شعرا کو بھی مدعو کیا گیا تھا ۔ اس لیے طلبا کے علاوہ شہر کے معززین سے کالج ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کالج میں ہونے والی اس تقریب میں تمام طلبہ مؤدب نظر آ رہے تھے، کیونکہ ذکر اس ذات اقدس تھا جس کی بارگاہ نیاز میں جنید اور بزید جیسے بزرگ سانس روکے رہتے ہیں ۔ بقول شاعر :
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آج کی اس تقریب سعید کے لیے کالج کے مرکزی “اقبال ہال ” کو خصوصی طور پر سجایا گیا تھا سٹیج پر قالین اور ان پر سفید براق چادریں بچھائی گئی تھیں ۔ گاؤ تکیوں سے مزین سٹیج پر تقریب میں شرکت کرنے والے جملہ نعت گو شعرا کو جلوہ افروز ہونے کی درخواست کی گئی۔ دیگر معزز مہمانوں میں ابوالامتیاز مسلم ، افتخار عارف ،نصیر بدایونی، یامین وارثی ،ابراہیم حسان ، ندیم نیازی ، منظر پھلوری ،جناب مولانا الیاس عطار قادری، جناب منور بدایونی، جناب خاطر غزنوی اور جناب قمر رونق افروز ہوئے۔
اس تقریب سعید کے پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن حکیم سے کیا گیا۔ تلاوت کی سعادت سال اول کے طالب علم قاری محمد سعد نے حاصل کی ۔ قرآت کے بعد سال دوئم کے طالب علم وحید اختر نے بارگاہ رسالت مآب میں ہدیہ نعت پیش کیا۔ اُن کی طرف سے پڑھا گیا یہ شعر بہت پسند کیا گیا:
خدا کی رضا مصطفیٰ کی رضا ہے
نبی کی رضا میں خدا کی رضا ہے
جناب پروفیسر حسن ملتانی صاحب نے نہایت عقیدت سے اپنی ایک نعت پیش کر کے اس نعتیہ مشاعرے کا باقاعدہ آغاز کیا اس کے بعد محترم پرنسپل صاحب نے حضور اکرم ﷺ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ حضور اکرم ﷺ قر آن کا مجسم آئینہ ہیں ۔ آپ دونوں عالموں کے لیے بخشش کا ذریعہ ہیں ۔
مہمان شعرا میں جناب اقبال عظیم نے ترنم سے اپنی نعت پیش کی جب یہ اشعار پڑھے تو محفل توپ تھی۔
اے مدینہ کے زائر خدا کے لیے داستان سفر مجھ کو یوں مت نے
ہم کو اقبال جب بھی اجازت لی ہم بھی آہ کے دربار تک جائیں گے
ضرور ضرور حاضرین محفل کے دلوں سے دعا نکلی اور مائک ابوالامتیاز مسلم کے سامنے آگیا۔ ان کی نعت مکمل انتہاک اور تو جہ سے سنی گئی یوں محسوس ہوتا تھا کہ ان کے دل سے نکلنے والی ہر آواز سامعین کے دلوں میں اترتی جارہی ہے اور لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ دینی ودنیاوی سرخروئی اس ایک دور سے وابستہ ہے۔
اپنے بھاگ جگانے والے کیسے ہوں گے
اُن سے ہاتھ ملانے والے کیسے ہوں گے
دوسرے نعت خواں افتخار عارف کے پاس پہنچا انہوں نے مدینے کے راہی کو مخاطب کر کے اپنی فریاد در نبوی ﷺ تک پہنچانے کی سعی کی۔
اپنے آقا کے مدینے کی طرف دیکھتے ہیں
دل الجھتا ہے تو سینے کی طرف دیکھتے ہیں
راشد حفیظ نے ملک خالد حسین ساجد کا نعتیہ کلام پیش کیا کیا۔
محمد صلی السلام کی عطاؤں کے زمانے کم نہیں ہوتے
غلاموں کی وفاؤں کے بہانے کم نہیں ہوتے
ہر طرف سے داد تحسین کی صدائیں بلند ہو ئیں حاضرین جھوم جھوم گئے بے اختیار لبوں سے دعا نکلی ۔
اب محمد طلحہ آئے جو نبی اکرم ﷺ کے حضور نعت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات پر فخر کر رہے تھے کہ ہم سب نبی آخر الزمان کے امتی ہیں۔ اُن کے یہ اشعار بہت پسند کیے گئے:
جب اشارہ کیا تو نے انگشت سے
چاند ٹکڑے ہوا مرحبا مرحبا
کس سےمانگوں تمھارے سوا یا نبی
درد دل کی دوا ، مرحبا مرحبا
آخر پر اجتماعی دعا کے لیے پروفیسر ناصر مدنی کو مدعو کیا گیا۔۔ کیا خوب صورت اندازِ بیان تھا الفاظ کا چناؤ اور رسیلا لہجہ اور پر سوز ادائیگی اللہ اللہ ۔حاضرین و سامعین کبھی بے اختیار رور ہے ہیں کبھی فریاد کر رہے ہیں دعا ہوتی رہی ۔ سامعین روتے رہے یہاں تک دکھی دلوں کو قرار آگیا دعا کا جواب آگیا۔ اور سبھی پرسکون ہو گئے ۔ 12 بجے یہ درود و سلام کی محفل اختتام مراحل میں داخل ہوئی تو جناب پرنسپل محمد نسیم صاحب ،صدر بزم اسلامیات مفتی محمد اعظم صاحب اور سٹیج سیکرٹری پروفیسر سرفراز احسن نے شر کا اور حاضرین تقریب کا شکریہ ادا کیا ۔اس با برکت محفل کا دورانیہ تین گھنٹوں پر مبنی تھا وقت گزر تا چلا گیا مگر احساس تک نہ ہوا ۔ سبھی عشق نبی ﷺمیں مگن رہے ۔ مد ہوش اور جذب و مستی کی اسی کیفیت میں نعت خواں انور جلیل شرقپوری نے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کا لکھا ہوا نذرانہ سلام پڑھنا شروع کیا۔ تو سب کھڑے ہو گئے اور ادب و احترام سے سرور کائنات کے حضور سلام پیش کرنے لگے۔
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام
سلام کے بعد مٹھائی تقسیم کی گئی ۔ ہم رحمتوں کی جھولیاں بھر کر خوش و خرم حسین یادیں سمیٹتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔