پہلی فتح سبق کا خلاصہ

 پہلی فتح  سبق نسیم حجازی کے معروف ناول محمد بن قاسم سے لیا گیا ہے۔جس میں مسلمان تاریخ کے کم سن سپہ سالار محمد بن قاسم کے سنہری کارنامے بیان کیے گئے ہیں۔

پہلی فتح

ناول نگار : نسیم حجازی

خلاصہ

نمازِ فجر کے بعد لوگ دمشق کے بازاروں اور مکانوں پر  کھڑے محمد بن قاسم کے لشکر کو دیکھنے کے لیے بے تاب تھے ۔

سترہ سالہ نوجوان  محمد بن قاسم ، ناہید کے حجاج کے نام خط کے جواب میں دیبل کی مہم پر روانہ ہو رہا تھا ۔

اس کی بوڑھی ماں چند عورتوں کے ساتھ بصرہ میں جہاد کی تبلیغ میں کوشاں تھی چنانچہ بصرے کا بیت المال عورتوں کے زیورات سے بھر گیا جس سے میدانِ جنگ کے لیے سامانِ رسد خریدا گیا ۔

رضا کار سپاہیوں کے جوش کا یہ عالم تھا کہ دمشق سے بصرہ روانگی تک پانچ ہزار کا لشکر بارہ ہزار سپاہیوں کا لشکر بن گیا تھا ۔ اسی دوران گونر مکران ، محمد بن ہارون کا یہ پیغام بھی پہنچ چکا تھا کہ راجہ داہر نے مسلم وفد کے بیشتر افراد کو  شہید کر دیا گیا ۔

محمد بن قاسم تین دن قیامِ بصرہ کے بعد شیراز کے راستے مکران پہنچا ۔ لسبیلہ کے گونر کی مدد کے لیے بھیم سنگھ کا بیس ہزار کا لشکر پہنچ چکا تھا ۔مسلمان فوج کے پہنچتے ہی اِکا دُکا حملوں کا آغاز ہو گیا ۔ بھیم سنگھ کے گوریلا دستوں  کے اچانک حملوں سے لشکرِ اسلام پریشان ہوا تو محمد بن قاسم نے اپنے سپہ سالاروں کی مجلسِ شوریٰ بلوائی ۔

اطلاع یہ تھی کہ شمالی جانب دشمن کا ایک قلع ہے جہاں سے یہ حملے کیے جا رہے تھے ۔ چنانچہ محمد بن قاسم نے پہلے اس قلعے کو فتح کرنا ضروری سمجھا ۔ تاکہ پیش قدمی اور اپنے عقب کو محفوظ کیا جا سکے ۔

لہذا سپہ سالار نے پانچ سو پیادہ لشکر سے قلعے کو فتح کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس پر بزرگ سالاروں نے تشویش کا اظہار کیا کہ سپہ سالار کی زندگی لشکر کے حوصلے بلند رکھنے کے لیے ضروری ہے ۔ لیکن محمد بن قاسم دشمن کے کسی بھرپور حملے سے بیشتر اُسے ختم کرنا چاہتا تھا سالاروں کے خدشات کو  رد کرتے ہوئے  اس نے اسلام کے بنیادی اصول  پر زور دیا کہ مسلمان  صرف اللہ تعالیٰ کے لیے لڑتا ہے ۔ سالار کے زندہ رہنے یا نہ رہنے سے اسے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے جیسا کہ جنگ قادسیہ میں سعد بن ابی وقاص ؓ کا معاملہ پیش آیا تھا ۔

اس کے برعکس کفار شخصیات کے سہارے لڑتے ہیں  اور رستم کی موت کے ساتھ ہی ایرانی فوج کی کمر ٹوٹ گئی تھی ۔ محمد بن قاسم ایسا سپہ سالار نہیں ہے جو اپنی جان بچانے کے لیے اپنے سپاہیوں کا خون بہنے  دیتا ۔ اس نے دشمن کے واپسی حملے کی صورت میں قلعے میں آ ملنے یا لشکر اسلام پر انتقامی حملے کی صورت میں فوج سے جا ملنے کا فیصلہ کیا ۔ اپنا نائب محمد بن ہارون کو مقر کیا ۔ اور اپنے معتمد زبیر کو اس کی نیابت کا فرض سونپ کر خود پانچ سو پیادہ سپاہیوں کے ساتھ اپنی پہلی فتح کے لیے روانہ ہو گیا۔

دوست کی امتحان میں ناکامی پر حوصلہ افزائی کا خط

Leave a Comment