کرونا وائرس اور ہماری ذمہ داریاں

کرونا وائرس اور ہماری ذمہ داریاں

کرونا وائرس کی وباء انسانی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ بننے جا رہی ہے  ۔ جس نے پوری دنیا کے افراد کے ساتھ ساتھ ملکوں اور حکومتوں پر بھی گہرے اثرات ڈالے ہیں  ۔ وطن عزیز پاکستان کی بات کریں تو یہاں بھی کورونا وائرس ایک بڑا چیلنج بن کر ابھرا ہے ، جس نے متعدد نئے مسائل اور مشکالات  کو جنم دیا ہے۔ ملکی معیشت ہو یا عام آدمی کی معاشی حالت  سب ہی کورونا وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں۔

کرونا  وائرس کے متعلق جاننے کے لیے ہمیں  مندرجہ ذیل  نکات کا جاننا ضروری ہے :-

  • کرونا وائرس کیا ہے؟

  • کرونا وائرس کی تشخیص

  • کرونا وائرس کا علاج

  • حکومتی سطح پر اقدامات اور ذمہ داریاں

  • فلاحی تنظیموں اور مخیر حضرات کا کردار اور ذمہ داریاں

  • عوامی ردِ عمل اور ذمہ داریاں

کرونا وائرس : ایک بہت بڑی وائرس فیملی کا ایک مہلک وائرس ہے جو عمومی طور پر بخار سے لے کر  سانس کی پیچیدہ  بیماریوں کے لیے جانا جاتا ہے ۔اس کی ابتدائی شکلیں سارس (SARS) کی صورت میں دنیا دیکھ چکی تھی ۔ لیکن کرونا وائرس (COVID-19) کو چین کے شہر وہان میں پہلی مرتبہ  2019ء میں دیکھا گیا تھا جو دیکھتے ہی دیکھتے ترقی یافتہ ممالک سے ہوتا ہوا پوری دنیا میں پھیل گیا ۔ وہ ممالک جن کو اپنے حفظانِ صحت کے  اقدامات  کی وجہ سے پوری دنیا جانتی تھی  وہ بھی  اس سے بہت متاثر ہوئے ۔ حفاظتی اقدامات نہ کرنے والے تو سب سے پہلے اس کا شکار ہوئے۔بقول شاعر:

وائرس کے وار میں مارے گئے

درد کے پندار میں مارے گئے

ناز جن کو تھا خدائی پر بہت

وہ بھرے دربار میں مارے گئے

حالیہ دنوں میں کرونا وائرس نے دنیا کے 176 ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا  ہے اس وائرس کی تباہ کاریوں سے لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔ اس وائرس  کی دہشت نے پوری دینا کو لاک ڈاؤن  کرنے پر مجبور کر دیا ہے ۔بقول شاعر:

ایسی ترقی پر تو رونا بنتا ہے
جس میں دہشت گرد کرونا بنتا ہے

کرونا وائرس کی ابتدائی علامات :

  1. مسلسل خشک کھانسی جس میں  چوبیس گھنٹوں میں تین سے چار  مرتبہ کھانسی کے  شدید دورے۔

  2. مسلسل بخار جو  37.8 سیلسیئس یا 100 فارن ہائٹ تک جائے۔

  3. سونگھنے اور چکھنے کی حِس کا ختم ہو جانا یا  کم ہو جانا ۔

  4. اچانک جسم میں سستی محسوس ہونا۔

سب سے پہلے یہ وائرس سانس کے ذریعے پھپپھڑوں اور اس سے  متعلقہ خلیوں کو مٹاثر کرتا ہے ۔عموماً انفیکشن لگنے اور علامات کے ظاہر ہونے میں پانچ سے چھ دن  لگ جاتے ہیں ۔ابتدا میں تینوں علامتیں یا کوئی  ایک علامت کا مسلسل رہنا کرونا وائرس کے حملہ کی ابتدا ہو سکتی ہے اگر ایسا ہو تو فوراً  اپنے آپ کو الگ تھلگ کر لیں اورکرونا ٹیسٹ  کروائیں اور رزلٹ آنے تک  آئسولین میں چلے جائیں ۔ اگر ٹیسٹ مثبت آیا ہے تو گھر میں موجود تمام افراد کو خود سے الگ تھلگ کر لیں اور یہ سمجھیں  ۔ بقول شاعر:

کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو

مشروبات کا استعمال زیادہ کرنا شروع کر دینا چاہیے۔ ابتدا میں پیراسیٹامول کا استعمال اور گرم سوپ اور دیسی قہوے راحت کا باعث بنتے ہیں لیکن بیماری کی پیچیدگیوں میں فوری طور پر قریبی ہسپتال رابطہ کرنا چاہیے۔

میرے خیال میں  حکومت پاکستان نے وباء سے نمٹنے کے لئے بروقت اور بڑے اقدامات کیے جن میں مستحق افراد اور غرباء پر خصوصی توجہ دی گئی۔ پاکستان میں دیگر ممالک کی طرح فوری لاک ڈاؤن نہیں کیا گیا اور نہ ہی کرفیو لگایا گیا بلکہ غریب طبقہ کی معاشی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے لاک ڈاؤن کیا گیا، جس میں نرمی  کر کے سمارٹ لاک ڈاؤن میں تبدیل کیا جا رہا  ہے، جس سے کسی حد تک عام آدمی کو راحت  اور معاشی سکون محسوس ہوا  ہے تاہم ان تمام تر اقدامات کے باوجود ملکی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور لوگوں کے معمولات زندگی پر  برے  اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

وزیراعظم پاکستان نے لاک ڈاؤن کے پیش نظر غرباء اور مستحقین کی مدد کیلئے احساس پروگرام متعارف کروایا جس کے پہلے مرحلے میں مستحق افراد تک شفاف طریقے سے 12 ہزار روپے فی گھرانہ تقسیم کیے گئے جس سے یقینا غریب طبقے  کو کافی حد تک مدد ملی ۔ احساس پروگرام کے ساتھ ساتھ  حکومت نے ریلیف کے متعدد پروگرام بھی شروع کئے، جن میں بجلی و گیس کے بلوں میں ریلیف جیسے اقدامات بھی  شامل ہیں۔

ریلیف کے ساتھ ساتھ حکومت نے لوگوں کو کورونا وائرس کی احتیاطی تدابیر کے حوالے سے تعلیم اور ترغیب بھی دی ۔ اس کے لیے روایتی  میڈیا اور سوشل میڈیا پر آگاہی مہم چلائی گئی ۔حکومتی احکامات کو کافی حد تک  عوامی پذیرائی بھی حاصل ہوئی تاہم یہ تمام اقدامات اس وقت تک ناکافی ہیں جب تک مکمل عوامی تعاون کے ساتھ ان پر عمل درآمد نہ کیا جائے گا ۔ عوام کو چاہیے کہ لاپرواہی نہ کریں ، احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور حکومت کی جانب سے دیے گئے ایس۔او۔پیز پر مکمل عمل کریں اور جن علاقوں میں سمارٹ لاک ڈاؤن کیا گیا ہے وہاں پر بھی حکومت کا ساتھ دیں تاکہ کورونا وائرس کے مزید پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔

کرونا وباء کے دوران ریلیف کے کاموں میں حکومت کے ساتھ ساتھ  سماجی تنظیموں اور مخیر حضرات کو بڑھ چڑھ کر  حصہ لینا چاہیے تاکہ مستحقین کی  مدد میں کوئی کمی نہ رہے  نہیں ۔ ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ خدمت اور خیرات  پاکستانیوں کے خون میں شامل ہے ۔ سیلاب ، زلزلہ ؛ یا کوئی اور مشکل گھڑی ہو پاکستانی ہمیشہ اپنے ہم وطنوں کی  مدد میں پیش پیش رہے   ہیں ۔ اس روایت کو زندہ رکھتے ہوئے  کورونا کی وبا ء میں بھی پاکستانی  غریب شہریوں کی مدد  بڑھ چڑھ کر رہے ہیں ۔

کرونا کی وباء میں سماجی تنظیموں کا کردار نہایت مثبت رہا ہے ۔ ان اداروں نے ایک طرف تو لوگوں کواس  کرونا  وباء سے بچنے کے لئے آگاہی دی ہے جبکہ دوسری طرف بڑے پیمانے پر فلاحی کام بھی شروع کر رکھے ہیں ۔ ان فلاحی تنظیموں کی طرف سے ہسپتالوں میں مفت  طبعی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں جن میں  طبعی ماسک ، اینٹی وائرس سینی ٹائزرز ، حفاظتی کٹس ، ٹیسٹنگ کٹس ، وینٹی لیٹرز ، نئی آئسولیشن وارڈز کے لیے فنڈ ، مستحقین کیلئے کھانا و دیگر سہولیات شامل ہیں۔

اس کے علاوہ غریب بستیوں میں جا کر بھی  مستحقین اور غریب افراد میں بھی ماسک ، امدادی پیکیج ، راشن و دیگر اشیائے ضروریہ تقسیم کیے جا رہے ہیں  جو قابل تحسین بات  ہے۔

ہماری ذمہ داریاں :

خصوصی افراد  کو وباء کے دوران سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے  ان کی طرف حکومتی ، سماجی اداروں اور مخیر حضرات کو خصوصی توجہ دینی چاہیے ۔ تاکہ وہ  مشکل حالات اور مسائل سے نکل سکیں ۔ سرکاری سطح پر ملک بھر میں موجود خصوصی افراد کا ڈیٹا مرتب کیا جائے تاکہ وہ  امدادی پیکیج سے محروم نہ رہیں ۔

 خصوصی افراد کے ساتھ ’’اقلیتیں‘‘ کو  بھی امدادی سکیموں میں شامل کیا جانا چاہیے ۔ خصوصاََ خاکروب و نچلا عملہ جو مختلف  ہسپتالوں و مختلف مقامات پر کام کرتے ہیں معاشی مدد کے ساتھ ساتھ  ایسے عملے کو  حفاظتی کٹس اور دیگر اشیاء فراہم  کی جائیں ۔

تیسرا طبقہ ’’خواجہ سراء‘‘ ہیں۔ ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس عموماً شناختی کارڈ نہیں ہیں ۔ نادرا میں رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے وہ احساس پروگرام جیسے بنیادی فنڈ سے محروم ہیں ۔ کیونکہ حکومت کے پاس ان کا مکمل ڈیٹا موجود نہیں ہے لہذا ان افراد کو بھی امدادی پیکیج  دیے جائیں ۔

خواتین جو اپنے گھر کی واحد کفیل ہیں معاشرے کا چوتھا نظر انداز ہونے والا طبقہ ہے ان میں  بیوہ عورتیں  جو خود گھر کی سربراہ اور اپنے خاندان کا واحد سہارا ہوتی  ہیں  اس مشکل وقت میں انہیں سہارے کی ضرورت ہے۔ ایسی خواتین کے حوالے سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت، سماجی تنظیموں، مخیر حضرات اور خود علاقے کے افراد کو ان کی مدد کرنی چاہیے۔

یہ جو ملاتے پھرتے ہو تم ہر کسی سے ہاتھ
ایسا نہ ہو کہ دھونا پڑے زندگی سے ہاتھ

آخر پر میں پاکستانی شہریوں سے اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ انتہائی عقلمندی اور ہوش سے کام لینا ہو گا ہمیں ایسا رویہ اختیار کرنا ہو گا کہ جس سے ہماری ذات کے ساتھ ساتھ کسی بھی شہری کو نقصان نہ ہو۔ اس کے لئے چند باتوں پر عمل درآمد بہت ضروری ہے۔

  • حکومتی اقدامات اور ہدایات پر بھر پور عمل کیا جائے۔

  • ہمیشہ مصدقہ خبر ہی شئیر کریں تاکہ لوگوں کو گمراہی سے بچایا جا سکے۔

  • اپنے خاندان کی نقل و حرکت کو محدود کر دیں ۔

  • اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ خاص طور پر بچوں اور 50 سال سے زائد عمر کے لوگ کسی صورت گھر سے باہر نہ نکلیں۔

  • گھر کے تمام افراد روزانہ دس سے پندرہ بار ہاتھ دھوئیں اور ہر بار تیس  سیکنڈ کا دورانیہ ہو۔

  • ہینڈ سینی ٹائزر کا استعمال دن میں کئی بار کیا جائے۔

  • جب بھی انتہائی ضروری کام سے گھر سے باہر جائیں تو فیس ماسک پہن لیں۔

  • کسی بھی شخص سے مصافحہ نہ کریں۔

  • تمام قسم کی چھوٹی بڑی تقریبات میں شرکت نہ کریں ۔

  • گھر پہنچتے ہی ہاتھوں کو صابن سے دھوئیں۔

گھر رہیے کہ باہر ہے اک رقص بلاؤں کا
اس موسم وحشت میں نادان نکلتے ہیں

 یہ ایسی ہدایات ہیں جن پر عمل درآمد کر کے ہم اپنے آپ اور خاندان کو کرونا وائرس سے بچا سکتے ہیں اور اس وائرس کو پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے آپ کا یہ عمل آپ کے ذمہ دار ہونے اور پاکستان کو کرونا سے ختم کرنے کا سبب بنے گا۔ اس دوران اگر کوئی شخص جس میں اس وائرس کی علامات ظاہر ہوں تو فوری طور پر حکومت کی جانب سے جاری کردہ ہیلپ لائن پر اطلاع دے تاکہ اس کا علاج ممکن ہو سکے ۔

اور آخر پر اللہ تعالٰی سے دُعا ہے اور لوگوں کو ایک مشورہ بھی ہے تاکہ اس  وباء سے بچا جا سکے ہے ۔

روز تسبیح کیا کر کہ یہ دن کٹ جائیں

حمد اور نعت لکھا کرکہ یہ دن کٹ جائیں

لوگ اب دیروحرم جاتے ہوئے ڈرتے ہیں

کوئی تدبیرِ شفا کر کہ یہ دن کٹ جائیں

2 thoughts on “کرونا وائرس اور ہماری ذمہ داریاں”

Leave a Comment