آپ بیتی
آپ بیتی یا خود نوشت کی تاریخ بہت پرانی ہے اور اس کی جڑیں انسانی تہذیب کے ابتدائی دورسے ملتی ہیں ۔ ابتدائی دور کے ادب میں آپ بیتی کا مقصد ذاتی تجربات اور زندگی کی کہانیوں کو محفوظ کرنا ہوتا تھا، جو زیادہ تر زبانی روایت کی صورت میں سینہ در سینہ سفر کرتی تھیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، لکھنے کے فن میں ترقی ہوئی اور لوگوں نے اپنے تجربات کو تحریری شکل میں منتقل کرنا شروع کیا۔ قرون وسطیٰ میں، بادشاہوں، ملاؤں اور مفکروں نے اپنی آپ بیتیاں لکھیں جو کہ تاریخ، سیاست اور فلسفہ کا اہم حصہ بن گئیں۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں، جب کتابوں کی طباعت اور تقسیم میں آسانی پیدا ہوئی، تو عام لوگوں نے بھی اپنی آپ بیتیاں لکھنے کا رجحان اختیار کیا۔ آج، آپ بیتی نہ صرف ذاتی تجربات کا اظہار ہے بلکہ یہ سماجی، ثقافتی اور تاریخی تجزیات کا بھی ذریعہ ہے۔ اس میں صداقت، جذباتیت اور انسانیت کی جھلکیاں شامل ہوتی ہیں، جو قاری کو مصنف کی زندگی کی گہرائی میں لے جاتی ہیں۔
گلاب کے پھول کی آپ بیتی
اثر کرے نہ کرے سن تو لے میری فریاد
نہیں ہے داد کا طلب یہ بندہ آزاد
میں ہوں پھولوں کا بادشاہ” گلاب کا پھول” میرا نام ہی میری پہچان ہے ۔ انسان کی زندگی کے پل پل کا ساتھی ،ہر خوشی اور غمی میں ساتھ نبھانے والا ۔شاعروں ، ادیبوں اور عاشقوں کے منہ کا نوالہ ؛چمن ،گلستان ، اور شبستان کا ساتھی ۔خوشیوں ، مسرتوں اور عقیدتوں کا استعارہ ۔ کبھی دولھا کے سرکا سہرا بنتا ہوں تو کبھی دلھن کے ہاتھوں کا گجرا ۔کبھی بزرگوں کے مزاروں کی زینت بنتا ہوں تو کبھی انسان کے سفر آخر میں قبر تک اس کا ساتھ نبھاتا ہوں ۔ کبھی مہمانوں کو خوش آمدید کہنے میں پیش پیش اور کبھی میچ جیتنے کی خوشی میں کھلاڑیوں کے سروں پر سوار ہو کر جیت کا جشن مناتے ہوئے ۔
میری بیسیوں قسمیں دنیا بھر میں موجود ہیں ۔ رنگ ، سائز اور شکل کے اعتبار سے انفرادیت پائی جاتی ہے ۔دنیا بھر کےادب میں نمایاں مقام حاصل ہے ۔ میری حیرت انگیز اور عبرت انگیز کہانی میری زبانی آپ بھی سنیے۔ یہ موسم بہار مارچ 2023ء کی ایک خوش گوار صبح تھی کہ میں نے گورنمنٹ کالج برائے خواتین الف ۔ب ۔ج کے وسیع چمن زار میں آنکھ کھولی۔ سر سبز پتیوں کے درمیان آنکھ کا کھلنا تھا کہ ایک وجدانی کیفیت طاری ہو گئی ۔ جس ڈالی پر میں نے آنکھ کھولی تھی اس کے سرے پر ایک بڑا گلاب کا پھول دکھائی دیا جو بلاشبہ سراپا حسن تھا ۔ گلاب کے پودے کی کیاریاں بھی سبد گل فروش معلوم ہو رہی تھیں ۔میں ابھی اردگرد کا جائزہ لے ہی رہا تھا کہ بادِ صبا کا ایک جھونکا آیا اور مجھے گد گدا کر گزر گیا۔ اس کے بعد باد نسیم کے جھونکوں نے تو راہ دیکھ لی آتے جاتے مجھ سے اٹھکیلیاں کیے بغیر نہ گزرتے ۔ میں اس عالم رنگ و بو میں خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔
کوئی ساڑھے دس بجے چار لڑکیوں کا ایک گروہ آیا اور قریب ہی بنچ پر بیٹھ گیا۔شوخ و جمیل اور حسن کا پیکر ایک طالبہ ماہ نور ان تمام میں نمایاں تھی وہ مجھے مسلسل گھور ے جا رہی تھی ۔ بات بات پر ان کا کھلکھلا کر ہنسنا اور دیکھنا مجھے پسند آ گیا ان کی رفاقت میں بہت مزا آ رہا تھا ۔تھوڑی دیر بعد اچانک ان کے قہقہے فضاؤں میں بکھرتے تو تمام پھول ان کی طرف متوجہ ہو جاتے ۔اچانک تین بار گھنٹی کی آواز آئی تو یہ گروہ تیزی سے کلاس روم کی طرف روانہ ہو گیا ۔ سارا دن تتلیوں اور بھنوروں کو بڑے پھولوں کے سا تھ بوس وکنار اور پینگیں بڑھاتے ہوئے دیکھ کر پہلے تو شرم محسو س ہوئی لیکن پھر حسد نے جنم لیا کہ مجھ سے یہ تتلیاں اور بھنورے کیوں دور ہیں ۔
اگلی صبح آنکھ کھلی تو میں میرا قد قدرے بڑھا ہوا اور چہرے کی لالی بڑھ چکی تھی ۔ موسم میں خنکی اور ہلکے ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے ایسے میں سورج کی شعاعوں کی تمازت بہت بھلی لگ رہی تھی ۔ سورج کی کرنوں نے میرے انگ انگ میں توانائی بھر دی ۔ اچانک تیز ہوائیں چلنے لگی جس نے بہت سارے ساتھیوں کو بے لبا س کر دیا جو پتیوں کے بغیر ٹنڈ منڈ ہو کر رہ گئے۔ نو دس بجے قدرے سکون ہوا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میں اور میرے جیسے کچھ اور ساتھی ہی چمن میں باقی رہ گئے تھے۔ چند نو خیز کلیاں چیخ رہی تھیں۔ میری پنکھڑیوں پر نکھار آ گیا تھا اور تتلیوں اور بھونروں کا مرکز نگاہ میں ہی تھا۔ آب رم جھم شروع ہو چکی تھی اور ہلکی سی بارش کے بعد موسم خوش گوار ہو گیا تھا۔ میری پتیوں پر بارش کے قطرے چمک رہے تھے میں نے ان آئینوں میں خود کو دیکھ تو خود سے حسد ہونے لگا۔
دن گزرتے چلے گئے ۔ روزانہ کی بنیاد پر ساتھیوں کے صدمے اٹھا اٹھا کر اب میں تھک چکا تھا۔ بلبلیں اب شکوہ اور شکایت کے گیت گا رہی تھیں ۔بادِ صبا کو روٹھے کئی دن گزر گئے تھے ۔کہ اچانک کالج کا مالی آیا اور ہمیں ڈالیوں سمیت بے دردی سے کاٹ لیا اور ایک گلدستے کی صورت میں پرنسپل کے میز پر آویزاں کر دیا ۔ سارا دن ادھیڑ عمر کی عورتوں کا کبھی مہنگائی کا ماتم چلتا رہااور کبھی کالج میں آنے والی نئی لیکچرار کے حسن کے قصے موضوع سخن رہے ۔ یہ کہانیاں سن سن کر میرے کان پک گئے ۔میری سکت جواب دے گئی اور میرے چہرے کی آب و تاب ماند پڑ گئی۔ پرنسپل نے مالی کو بلایا اور ہمیں اس کے سپرد کر دیا۔ مالی نے ہمیں مین گیٹ کے پاس ایک پرانے میز پر رکھ دیا۔ اسی وقت ایک حسین دوشیزہ کا ہاتھ تھا اور میرا گریبان۔اس نے اٹھاتے ہی کئی بوسے کیے تو بے جان جسم میں جان پڑ گئی اور میں اپنی قسمت پہ نازاں تھا کہ اچانک اس نے کتاب کھول کر مجھے اس میں رکھ دیا۔رکھتے ہی میرا دم گھٹنے لگا چند دن کے اندر ہی میری پتیاں سوکھ اور بکھر گئیں ۔یہ میری آپ بیتی ہے مہد سے لحد تک کی کہانی ۔ میری حیات رفتہ کا سبق یہ ہے کہ حسن بے ثبات پیار نہ کیا جائے اور یاد رکھا جائے کہ ہر کمال کا انجام زوال ہی ہوتا ہے۔
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے