چراغ کی لَو سبق کا خلاصہ

چراغ کی لَو سبق کا خلاصہ  ہاجرہ مسرور کے افسانوی مجموعے “سب افسانے میرے” سے لیا گیا ہے۔ہاجرہ مسرور کے افسانوں کے موضوعات عورت اور غربت  ہیں۔

چراغ کی لَو

افسانہ نگار : ہاجرہ مسرور

خلاصہ

افسانہ چراغ کی لو کے آغاز  میں مصنفہ  لکھتی  ہیں کہ اچھن کاباپ کام سے واپس آکر نہ جانے کہاں چلا گیا تھا ۔گھر کی سونی دیواروں پر سناٹا اور اندھیرا چھا چکا تھا ۔

اچھن ڈر ، خوف اور تنہائی کی وجہ سے  رونا چاہتی تھی لیکن نہ جانے کیوں آنسو اس کے حلق میں اٹک کر رہ جاتے تھے ۔ اسے  اندھیرے میں ڈوبے گھر میں ہر طرف سفید کپڑوں میں ملبوس ڈھانچوں کی  ہڈیوں کی چٹخ سنائی دے رہی تھی ۔

رات تو رات اب تو دن کو بھی اس کو یہ وہم گھیرے رہتا کیونکہ ایسے ہی کھڑکھڑاتے کفن میں مرنے کے بعد اس کی ماں کو لپیٹا گیا تھا ۔ اچھن بے جان ہو کر چارپائی پر لڑھک جاتی ہے۔

اس وقت مانوس طریقے سے دروازے کے کھلنے اور بند ہو نے کی آواز اس کو مزید خوفزدہ کر دیتی ہے۔ اس کے پوچھنے پر  اس کے باپ کی آواز آتی  ہے اور چراغ نہ جلانے کا پوچھتا ہے تو اچھن  دیا سلائی نہ ہونے کا کہتی  ہے ۔ باپ نے بیڑی سلگا کر دیا سلائی کی ڈبی اچھن کو دی ۔

بیڑی کے دھوئیں سے اچھن کی کھانسی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے جس پر وہ اپنے باپ کو بیڑی پینے سے منع کرتی ہے تو وہ غصے میں آ جاتا ہے کیونکہ وہ پہلے ہی مہنگائی کی وجہ سے چار کی بجائے ایک دو کی نوبت آگئی تھی  اب بیٹی نے حکم دے دیا کہ وہ یہ بھی  نہ پیئے ۔

اچھن اس کو جواب دیے بغیر اٹھی اور سیاہ طاق میں رکھا ہوا چراغ جلا دیا اور خود طاق کے برابر دیوار سے سر ٹیک کر چراغ کی ٹمٹماتی ہوئی لو کو پتلیاں پھیرے بغیر دیکھنے لگی ۔

باپ نے بیڑی بجھا کر کان پر جمائی اور اچھن کو بغور دیکھنے لگا جو بے حس وحرکت کھڑی تھی جیسے دیوار کے ساتھ ٹک کر مر گئی ہو ۔ وہی کھلے ہونٹ ، پھری ہوئی پتلیاں۔۔۔

بالکل  اپنی ماں کی طرح ، جیسے دو سال پہلے وہ مرنے کے بعد تھی اور اچھن کا باپ کفن دفن  کی فکر میں تھا کہ کہیں سے انتظام ہو جائے تو اپنے مالک کے پاس گیا تھا جس نے احسان اور  نیکی سمجھ کر اس کو پچیس روپے دیے تھے تب جا کر کہیں اچھن کی ماں کو کفن نصیب ہوا تھا ۔

امیر ہو یا غریب سب کو ایک جیسا ہی کفن ملتا ہے اور یہی وہ موقع ہوتا ہے جب امیر اور غریب میں فرق ختم ہو جاتا ہے ۔

اب ماں کی طرح اچھن بھی بیمار رہتی تھی وہی ٹھسکے دار کھانسی اور ہلکا ہلکا بخار ۔ باپ فکر مند تھا لیکن کرتا بھی تو کیا ؟ خیراتی ہسپتال کی بے اثر دوائیوں کے علاوہ اس کے بس میں کیا تھا بیوی کے لیے حکیموں کے نسخے پڑے رہ گئے تھے۔

پچھلے بیس سال سے اس کی تنخواہ دس روپے ہی تھی جبکہ روپے کی قدر بہت گھٹ گئی تھی ۔ تنخواہ بڑھانے کی سوچتا تو مالک پہلے ہی بھانپ کر کہ دیتا کہ اس کو نوکروں کی کمی نہیں ہےصرف اس کے بڑھاپے کا خیال ہے ۔

لوگ سمجھاتے تھے کہ لڑکی کی شادی کر دے وہ خودبخود ٹھیک ہو جائے گی وہ سوچتا اچھن کی ماں بھی تو ایک سہاگن تھی اس نے کون سا سکھ پا لیا اسی طرح غریب کی لڑکی غریب کے گھر ہی جائے گی ————- بیٹی کی حالت دیکھ کر وہ اچھن سے  بولا کہ ٹھیک ہے اب میں بیڑی نہیں پیوں گا ۔

اچھن نے اپنے باپ سے چراغ کی لو کو بڑھانے کی فرمائش کی  تو اچھن کے باپ نے سوچا اس کا دماغ چل گیا ہے اتنا مہنگا تیل اور پھر اتنی مشکل کے بعد  اس کا ملنا اس کو پریشان کر دیتا تھا دوسری طرف اتنی کم روشنی میں اچھن کا جی الٹنے لگتا تھا ۔

وہ سوچتی رہتی اس کا باپ اتنی سی روشنی پر قناعت کیوں کرتا ہے کیونکہ نکڑ والے گھر میں تو ساری رات لالٹینیں جلتی رہتی تھیں اور وہ طاق میں رکھے گئے برائے نام روشنی دینے والے چراغ کی طرح گھٹ گھٹ کر زندگی گزار رہی تھی اور وہ رو رو کر اپنے باپ کی قناعت پسندی کاماتم کرنا چاہتی تھی مگر آنسو تو جیسے اس کے حلق میں پھنس کر رہ گئے تھے۔

چراغ کی لو سبق کا خلاصہ

 

PDF DOWNLOADING

Leave a Comment