دوستی کا پھل سبق کا خلاصہ

دوستی کا پھل سبق ایک لوک کہانی ہے جس کو  شفیع عقیل  نے لکھا ہے ۔جس میں دوستی جیسے عظیم رشتہ کو ایک لوک کہانی کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

دوستی کا پھل

مصنف : شفیع عقیل

خلاصہ

ایک دفعہ کا ذکر ہےکہ کسی جنگل میں کبوتروں کا ایک جوڑا رہتا تھا ۔ اُن کا گھونسلا ایک بڑے درخت پر تھا جب کبوتری نے انڈے دیے تو اسے ہمیشہ یہی فکر رہتی کہ کوئی ان کے انڈوں کو نہ لے جائے ۔

ایک دن  وہ کبوتر سے کہنے لگی کہ بُرا وقت کسی کو بتا کے نہیں آتا ہمیں کوئی نہ کوئی ساتھی ضرور بنانا چاہیے جو وقت پڑنے پر ہمارا ساتھ دے سکے۔

 کبوتر کچھ دیر سوچ کر کہنے لگا کہ یہاں ہماری برادری کا کوئی پرندہ بھی نہیں رہتا جسے ہم اپنا دوست بنائیں ۔ کبوتری نے اسے سمجھایا کہ دوسری برادری کے پرندے یا جانور سے بھی دوستی  کی جا  سکتی ہے ۔ دنیا میں اکیلا جاندار کسی کام کا نہیں ہوتا ۔ کبوتری کی یہ بات کبوتر کے دل میں اثر کر گئی ۔

وہ اپنے اوس پڑوس کے بارے میں سوچنے لگا اچانک اسے گدھوں کے ایک جوڑے کا خیال آیا جو قریب ہی ایک درخت پر رہتے تھے اس نے کبوتری سے رائے لی تو وہ فوراً راضی ہو گئی۔کبوتر گدھوں کے جوڑے کے پاس گیا اور کہا کہ ہمسائے تو ماں جائے کی طرح ہوتے ہیں ۔ کیوں نہ ہم دوست بن جائیں اور بُرے وقت میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا وعدہ کریں ۔ گدھ بخوشی اس دوستی کے لیے راضی ہو گیا ۔

گدھ نے مشورہ  دیا  کہ قریب ہی ایک درخت کی کھوہ میں ایک سانپ رہتا  ہے ۔ اگر وہ بھی ہمارا دوست بن جائے تو ہم خطرے سے بالکل محفوظ ہو جائیں گے ۔ چنانچہ دونوں دوست سانپ کے پاس  پہنچ گئے اور اپنے آنے  کا مقصد بتایا ۔ سانپ کچھ دیر لیٹے لیٹے سوچتا  رہا پھر کہنے لگا کہ مجھے تم دونوں کی دوست منظور ہے لیکن یاد رکھنا دوستی میں  جان بھی دینی پڑ سکتی ہے اس طرح سانپ ،گدھ اور کبوتر کی دوستی ہوگئی ۔

ایک دن ایک شکاری سارا دن  شکار سے مایوس ہو کر شام کو اسی درخت کے نیچے آ گیا ۔ اس نے درخت کا بغور جائزہ لیا تو اسے گھونسسلا نظر  آیا تو اس نے اندازہ لگا لیا کہ اس میں کسی پرندے کے بچے ہیں ۔ اس نے ان بچوں کو گھونسلے سے نکالنے کا سوچا اور روشنی کی خاطر آگ کا الاؤ روشن کیا اور درخت پر چڑھنے لگا ۔

کبوتر اور کبوتری یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے کبوتر نے کہا کہ میں ابھی اپنے دوستوں کو خبر کرتا ہوں تو کبوتری بولی” خدا بھی ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں “۔ لہذا پہلے ہمیں خود کوشش کرنی چاہیے وہ دونوں اڑے اور پاس ہی بہتی ندی سے اپنے پروں میں پانی بھر کر لائے اور آگ پر چھڑک دیا ۔ اس طرح آگ بجھ گئی شکاری اندھیرے میں درخت پر نہیں چڑھ سکتا تھا ۔

 

اس لیے نیچے اترا اور دوبارہ آگ جلانے  کے بعد درخت پر چڑھنے لگا ۔ کبوتروں کا جوڑا  پھر ندی سے پانی پروں میں بھر کر لایا  اور آگ بجھا دی  ۔ یہ دیکھ کر شکاری غصے سے تلملا اٹھا اور نیچے اتر کر موٹی موٹی لکڑیاں جمع کر کے آگ جلائی تیز روشنی میں شکاری نے ایک دفعہ پھر درخت پر چڑھنا شروع کر دیا اس بار آگ بجھانا مشکل تھا اس لیے اب کبوتروں نے اپنے دوستوں سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ۔

کبوتر گدھوں کے پاس  گیا اور ساری کہانی بیان کر دی اور مدد کرنے کو کہا۔کبوتر اور گدھ ندی سے اپنے اپنے پروں میں پانی بھر کر لائے اور تھوڑی دیر میں آگ بجھا دی ۔ شکاری چڑھنے اترنے کے  دوران تھک چکا تھا اس لیے اس نے سوچا  بچوں کو صبح نکال کر لے جائے گا ۔

درخت کے قریب ہی شکاری کو بستر بچھاتے دیکھ کر کبوتر اور گدھ اس کی نیت بھانپ گئے ۔ کبوتری نے صلاح دی کہ تم اب اپنے دوست  سانپ کے پاس جاؤ ۔ کبوتر اور گدھ دونوں سانپ کے پاس گئے اور شروع سے لے کر آخر تک ساری بات بتا دی ۔

سانپ نے اس کہا اس وقت تم دونوں جاؤ صبح میں سارا انتظام کر لوں گا ۔ واپس آکر چاروں صبح ہونے کا انتظار کرنے لگے ۔ جب صبح ہوئی تو شکاری خوشی خوشی اٹھا کہ بچے نکال کر گھر کی راہ لے ۔

یوں ہی وہ درخت پر چڑھنے کے لیے آگے بڑھا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ گھبراہٹ میں اسے اپنا ہوش تک نہ رہا ۔ درخت کے تنے کے گرد ایک بہت بڑا سانپ لپٹا اسے دیکھ سیکھ کر پھنکار رہا تھا ۔ اس نے دل میں سوچا بھاڑ میں جائے شکار ؛ جیسے بھی ہو جان بچاؤ ۔ شکاری اپنا سامان چھوڑ کر ایسا بھاگا کہ پھر مڑ کے بھی نہ دیکھا ۔

آج دنیا بھر میں کبوتر کو دوستی اور امن کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

PDF DOWNLOADING

Leave a Comment