نظیراکبرآبادی کی نظم تسلیم و رضا کا خلاصہ

نظیراکبرآبادی کی نظم تسلیم و رضا   کا خلاصہ بہت اہم ہے ۔نظم “تسلیم ورضا “ گیارھویں  جماعت  سرمایہ اردو ( اردولازمی ) کی تیسری نظم  ہے ۔ جس کے  شاعر نظیر اکبرآبادی  ہیں ۔ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن پنجاب کے تمام بورڈز کے سالانہ امتحانات میں وقتاً فوقتاً  تسلیم ورضا  نظم  کا خلاصہ  آتا رہتا ہے ۔

شاعر: نظیراکبرآبادی

تسلیم و رضا

خلاصہ

جو لوگ فقر اختیار کرتے ہیں اور جیتے جی مر رہتے ہیں وہ کبھی دکھی نہیں ہوتے ان کی زندگی کے تمام معاملات خوشی خوشی طے ہو جاتے ہیں ۔  آسودہ  حالی میں تو خوش ہوتے ہی ہیں تنگ دستی میں بھی ملال نہیں کرتے ۔ زندگی  کے نشیب و فراز ان کے اعتدال میں خلل نہیں ڈال  پاتے ۔ سچ ہے اللہ تعالٰی کے طالب  ہی مرد ہوتے ہیں ۔ فقیر من مانی کا قائل نہیں ہوتا بلکہ جہاں رکنے کا حکم ملا وہ   رک جاتا ہے اور جب گھر چھوڑنے کا حکم ملا تو  بے گھر ہو جاتا ہے ۔  اس کی منزل کا تعین اس کا ہادی کرتا ہے ۔ ایسے لوگوں کے لیے پیوند لگی کملی اور قیمتی شال میں کوئی فرق نہیں رہتا ۔ ان  کے پیشِ نظرقربِ الٰہی کا حصول ہوتا ہے اگر مالک نے اُن کے لیے غم کو پسند کیا تو غم ہی پسندیدہ ٹھہرا ۔ کھانے کو کم ملا تو اسی  پر شکر گزار رہنا فقر ہے ۔ مصائب ان گنت ہی کیوں نہ ہوں ، اللہ کے طلب گار کے لیے ہر مصیبت قرب کا ایک اور بہانہ  ہوتی ہے ۔ سالک  کے لیے زندگی اور موت کے معانی میں کچھ فرق نہیں رہتا ۔ گردشِ ماہ و سال بھی اُن  پر گراں نہیں گزرتے  ۔ اُن کے دن رات خوشی اور غمی سے نہ آشنا ہوتے ہیں  ۔ اللہ تعالیٰ کے طلب گار عجیب لوگ ہوتے ہیں کہ جو عجیب ڈھنگ سے زندگی بسر کرتے ہیں  ۔ خدا کے یہ دوست نہ نوری ہوتے ہیں نہ ناری ہوتے ہیں ۔ یہ وہ خاکی ہیں جو ہر لمحے کی خوشی سے لبریز ہوتے ہیں ۔  وہ   ویسی  ہی  زندگی  جیتے   ہیں   جیسی  ان  کا  مالک  ان  کے  لیے  پسند  کرتا   ہے   اور  یہی  لوگ  مرد  کہلانے  کے حق دار   ہیں۔

Leave a Comment