سید محمد جعفری کی نظم ایبسٹریکٹ آرٹ کا خلاصہ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن پنجاب کے تمام بورڈز کے سالانہ امتحانات میں وقتاً فوقتاً آتا رہتا ہے ۔
سید محمد جعفری کی نظم ایبسٹریکٹ آرٹ کا خلاصہ بہت اہم ہے ۔نظم ” ایبسٹریکٹ آرٹ ” گیارھویں جماعت سرمایہ اردو ( اردو لازمی ) کی دسویں نظم ہے ۔
شاعر: سید محمد جعفری
ایبسٹریکٹ آرٹ
خلاصہ
شاعر موصوف کو ایک نمائش پر جانے کا اتفاق ہوا ۔ رسمِ دنیا نبھاتے ہوئے انھوں نے وہاں فن پاروں کی تعریف بھی کر ڈالی ۔ وہ آج تک دونوں گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں کیونکہ جب کوئی اس نمائش کے بارے میں سوال کرتا ہے تو وہ کچھ بھی بتانے سے قاصر ہے ۔ وہاں کمالِ فن کا نمونہ وہ تصویر تھی کہ جس میں شاید بھینس کے جسم پر اونٹ کی سی گردن کا گمان ہوتا تھا ۔ اس کی ٹانگیں مسواک سی پتلی اور ناک ، خطرناک تھی ۔ ایک اور شہ پارہ محض رنگوں کا ایک بے ہنگم مجموعہ تھی ۔ جس پر موجود آڑی ترچھی لکیریں کسی شکستہ آئینے سے منعکس ہونے والی کرنیں معلوم ہوتی تھیں ۔ فنِ تجرید کے ایسے عجیب الخلقت نظارے دیکھ کر وہاں آئے بچے اپنی ماؤں سے لپٹے جاتے تھے ۔ انصاف کا تقاضہ یہی تھا کہ اپنی اس تقصیر کو معاف کیا جائے یہ نمائش حقیقت میں کسی دیوانے کا خواب تھی۔