تشکیل پاکستان سبق میاں بشیر احمد کی کتاب “کارنامہ اسلام ” سے لیا گیا ہے۔”جس میں تشکیل پاکستان کے دوران پیش آنے والے اہم واقعات اور شخصیات کا ذکر کیا گیا ہے ۔
سبق “تشکیل پاکستان” بارھویں جماعت سرمایہ اردو( اردولازمی) کا سبق ہے۔ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن پنجاب کے تمام بورڈزکے سالانہ امتحانات میں وقتاً فوقتاً اس سبق کا خلاصہ آتا رہتا ہے ۔
:خلاصہ کی تعریف
سبق کے تمام پیراگراف میں موجود بنیادی نکات کو مختصراً نثر میں بیان کرنا خلاصہ کہلاتا ہیں۔
خلاصہ لکھتے ہوئے مندرجہ ذیل نکات کا خیال رکھنا چاہیے۔
- سبق کا خلاصہ 2 سے 3 صفحات کے درمیان ہونا چاہیے
- سبق کے خلاصے میں تمام نکات کی ترتیب اور تسلسل کو مدِ نظر رکھ کر خلاصہ لکھنا چاہیے۔
- سبق کے خلاصہ میں غیر ضروری وضاحت اور تنقید سے پرہیز کرنا چاہیے۔
- سبق کاخلاصہ 10 سے15 منٹ میں لکھنا ہوگا ۔
- سبق کا خلاصہ 10نمبر کاہو گا( 1 نمبر مصنف کے نام کا ہوگا اور 9 نمبر کا خلاصہ لکھنا ہو گا۔
- دو اسباق کے نام ہوں گے اور آپ کو ان دونوں میں سے کسی ایک کا خلاصہ لکھنا ہو گا۔
- سال دوم کے پیپر میں چوتھا سوال سبق کے خلاصےکے بارے میں پوچھا جائے گا۔
مصنف: میاں بشیر احمد
خلاصہ
ہندوستان میں اسلامی ریاست کا زوال
برصغیر میں 1717 ء میں عالمگیر کی وفات کے بعد اسلامی حکومت کے زوال کا آغاز ہوا تو پچاس سال کے اندر اندر حکومت اور امرا کی طاقت معدوم ہو گئی اور انگریز دہلی پر قابض ہو گئے ۔
ہندوستان میں اصلاح معاشرہ میں صوفیاء کا کردار
شاہ ولی اللہ اور شاہ عبدالعزیز کی مساعی بھی کارگر نہ ہوئی ۔ پھر سید احمد بریلوی کی اصلاحِ معاشرہ اور جہاد کی کوشش بھی اپنوں کی غداری کی بھینٹ چڑھی ۔ فرائضی تحریک بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی ۔ 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی اسلامی حکومت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی ۔
سر سید احمد خان کا تشکیلِ پاکستان میں کردار
زمینیں ، جائیدادیں ، عہدے اور تعلیمی نظام سب جاتا رہا ۔ اردو کی جگہ بھاشا زبان اور انگریزی کو فروغ ملا ۔ دوسری طرف ہندؤ نئے حالات سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوشاں ہوئے تو ان حالات میں سر سید احمد خان احمد خان جیسا ایک پُر خلوص مصلح مسلمانوں کی مدد کے لیے سامنے آیا ۔ سرسید نے قدامت پسندی کی بجائے جدیدیت کا درس دیا ۔ مسلمانوں کی تعلیم وتربیت کے لیے علی گڑھ کالج بنایا ۔ لاہور میں “انجمنِ حمایت اسلام” قائم ہوئی ۔ آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاسوں میں مشترکہ تعلیمی لائحہ عمل ترتیب دینے پر توجہ دی گئی ۔ بھاشا زبان کو رائج کرنے پر سرسید نے دو قومی نظریہ کا پرچار کیا کہ ہندوستان میں ، مسلمان اور ہندؤ دو اقوام ہیں ۔ سرسید نے مسلمانوں کو جدید تعلیم کے بغیر سیاست سے دور رہنے کے لیے کہا ۔ وہ مغربی جمہوریت کو ہندوستان کے لیے غیر ضروری تصور کرتے تھے کیونکہ اس سے مسلم قوم مستقل طور پر ایک اقلیت بن کر رہ جاتی ۔ سر سید کی محنت مسلمانوں کی سیاسی بیداری کی صورت میں رنگ لائی ۔ سر سید کے بعد ان کے رفقاء کار نے اُن کے مشن کو آگے بڑھایا ۔محسن الملک نے علی گڑھ کالج کو ترقی دی تو وقار الملک مسلم لیگ کے قیام میں معاون ثابت ہوئے ۔ حالیؔ کی مسدس اور شبلیؔ کی سیرت النبی ﷺ اور ندوۃ العلماء کا ادارہ قائم کر کے مسلمانوں کا لہو گرمایا ۔ امیر علی نے انگریزی زبان میں ادب کو فروغ دیا ۔
علامہ محمد اقبال ؒ اور تشکیلِ پاکستان
مختلف دینی مکتبہ فکر کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ “دوسروں ” سے نفرت نے جنم لیا یہ رجحان بھی لائق اصلاح تھا ۔ چنانچہ علامہ اقبال نے مشرق ومغرب کے گہرے شعور کی روشنی میں اپنا فلسفہ پیش کیا جو ایک انسانِ کامل کی انفرادی و اجتماعی نشوونما کا داعی ہے ۔ اقبال اطاعت الہی ، ضبطِ نفس اور خلافت ارضی کی منازل طے کر کے خودی کی بیداری کے داعی ہیں وہ بندہ مومن کے ظہور کے لیے توحید ، رسالت ، ضبطِ نفس اور امید کو لازمی قرار دیا ۔ ان کی آواز پر قوم نے لبیک کہا لیکن معاشی رکاوٹیں بہت تھیں چنانچہ انحطاط کی جمالیات نے اردو زبان و ادب کو فروغ دیا ۔
تعلیمی اور سیاسی اداروں کا تشکیل پاکستان میں کردار
علی گڑھ کالج یونیورسٹی بن گیا ۔ انجمنیں قائم ہوئیں اب مسلمان سیاسی اتحاد کے لیے کوشاں ہوئے ۔ کانگرس کے عزائم تقسیم بنگال پر واویلے سے آشکار ہوئے ساتھ ہی اردو ہندی تنازعہ نے مسلم روایات کو چیلنج کیا تو 1906ء میں مسلم لیگ وجود میں آئی ۔ 1909ء منٹے مارے اصلاحات میں مسلمانوں کا جداگانہ انتخاب کا حق تسلیم کر لیا گیا ۔تنسیخِ بنگال اور جنگ بلقان و طرابلس سے مسلمانوں کو یقین ہو گیا کہ حکومت برطانیہ کسی بھی سطح پر ان کی خیر خواہ نہیں ۔ چنانچہ انہوں نے ہندوستان میں سیلف گورنمنٹ کا مطالبہ کر دیا اور کانگرس سے اشتراکِ عمل پر متوجہ ہوئے ۔
جنگ عظیم اول اور تشکیلِ پاکستان
جنگ عظیم اول نے کانگرس اور مسلم لیگ میں میثاقِ لکھنو کو راہ دی ۔ جنگ کے بعد سلطنت عثمانیہ پر ضربِ کاری کے ردِ عمل میں گاندھی علی برادران نے تحریک ِ خلافت چلائی جو انتہا پسند ہندوؤں کے اشتعال کی بدولت ہندومسلم اختلافات پر ختم ہو گئی ۔
نہرو رپورٹ ، قائد اعظم کے چودہ نکات،آل انڈیا ایکٹ 1935ء الیکشن 1937ء
نہرو رپورٹ کی مسلم دشمنی کا جواب محمد علی جناح نے چودہ نکات کی صورت میں دیا ۔ گاندھی نے سول نافرمانی کا تیر چلایا ۔ انگلستان میں گول میز کانفرنسیں بے سود ہوئیں تو 1935ء کا ایکٹ نافذ کیا گیا جس کے تحت 1937ء میں الیکشن اور کانگرسی وزارتیں عمل میں آئیں ۔ اس دور میں مسلمان تہذیب و روایات کو ملیا میٹ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
قرار دادِ پاکستان اور قائد اعظم
اس نازک دور میں محمد علی جناح نے ہندوؤں اور انگریزوں کی سازشوں کو ناکام بنایا اور مسلمانوں کو ایک پرچم کے تلے جمع کیا ۔ قراردادِ پاکستان 1940ء کی منظوری سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا اب مسلمان سیاسی اور انتظامی تحفظات کی بجائے ایک الگ مستقل قومی ریاست کا مطالبہ کر رہے تھے اس نازک ترین دور میں مسلمانوں کے درمیان اختلافات بھی ہوئے ۔ گاندھی ، جناح مذاکرات بھی ہوئے ۔ لیکن آزادی مسلمانوں کا مقدر بن چکی تھی ۔
تشکیلِ پاکستان
ء1945-46ءکے انتخابات نے دو قومی نظریہ پر مہر تصدیق ثبت کر دی اور بالآخر حکومتِ برطانیہ نے جون 1947ء تک ہندوستان کو خالی کرنے کا اعلان کر دیا ۔ فرقہ وارانہ فسادات شروع ہو گئے قریبا ً دس لاکھ بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا گیا اور اسی خونِ صد انجم سے بالآخر 14اگست 1947ء کو آزادی کی صبح طلوع ہوئی ۔ قیام پاکستان ، تاریخِ عالم کا ایک انوکھا واقعہ ہے راہ آزادی کی قربانیاں اس بات کی متقاضی ہیں کہ پاکستان کو ایک مثالی فلاحی ریاست بننا ہے جہاں سماجی اور معاشی انصاف ، جمہوریت اور مساوات انسانی کے زریں اصول ہوں گے ۔ ہم ایک ایسے اسلام کے پیامبر ہیں جس کی عملی صورت نبی اخرالزماں ﷺ اور خلافت راشدہ کے زریں دور میں موجود ہے یہی اسلام ــــــــــــ قیام پاکستان کا موجب تھا اور یہی اسلام اس کی ترقی اور استحکام کا ضامن ہے۔