BEST URDU SPEECH
Welcome to our blog “BEST URDU SPEECH”, where we delve into the art of speech and public speaking, but with a unique twist – today, we’re exploring the eloquence and power of Urdu oratory. Urdu, with its poetic charm and rich vocabulary, has a unique ability to convey deep emotions and profound ideas. In this blog post, we will unravel the beauty of delivering speeches in Urdu, understanding its nuances, and appreciating the cultural and linguistic aspects that make it so captivating. Whether you’re a seasoned speaker or just curious about the world of Urdu oratory, join us on this journey as we explore the art and impact of ‘Speech in Urdu.'”
پاکستان کی تاریخ کی سب سے بہترین تقریر جو کہ ہمارے نظام انصاف کے منہ پر ایک تھپڑ اور تازیانے کا کام کرے گی۔اور آپ اس تقریر کے ذریعے کروڑوں پاکستانیوں کے دل جیت سکتے ہیں ۔
کرپشن کے موضوع پر تقریر
پتھر تو نہیں ہوں کہ لب اپنے نہ کھولوں
گر منہ میں زباں ہے تو بتا کیسے نہ بولوں
مہنگا ہے بھرے شہر میں انصاف کا سودا
میں سچ کے ترازو میں کہاں تک اسے تولوں
صدر عالی مرتبت اور معزز حاضرین مجلس ! مجھے آج کے ایوان میں جس موضوع پر اظہار خیال کرنے کا موقع ملا ہے ، وہ فیض احمد فیض کی نظر میں کچھ یوں ہے :
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی ، منصف بھی
کِسے وکیل کریں ، کس سے منصفی چاہیں
صدرِ عالی مرتبت ! اگر آج ہم اپنے اعصاب پر جمے جہالت ، جنونیت اور تنگ نظری کے گردوغبار کو ایک لمحے کے لیے جھاڑ کر سچائی کی ڈور کے سرے تھامے ذرا غور کریں تو لگتا ہے کہ ہم آج بھی زمانہ جاہلیت میں سانس لے رہے ہیں ۔خطبہ حجتہ الوداع میں طے کردہ انسانی حقوق کے چارٹ کو پسِ پشت ڈال کر اس کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں ۔لوگوں کو ان کے پیاروں سے جدا کر کے اغوا کا ڈراما رچایا جا رہا ہے ۔عدل وانصاف کے معیار کو مذاق بنا کے رکھ دیا گیا ہے ۔عدالتی احکامات کی تعمیل کی بجائے ان کی بے توقیری کی جارہی ہے ۔آج فرسودہ روایات و اقدار کے ستونوں پر قائم معاشرہ بنتِ ہوا کو زندہ درگور کرنے سے قاصر تو ہے مگر اس پ مختلف صورتوں میں ظلم و ستم ڈھایا جا رہا ہے ۔کبھی خاندان ، قوم یا مسلک کے باہمی تعاون سے صنفِ نازک کی کرب ناک آہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کروا کر خود کشی کا ڈراما رچایا جاتا ہے یا اس کی زندگی کا دائرہ اس پر اس قدر تنگ کیا جاتا ہے کہ وہ خود ہی عزت کو بچاتے ہوئے اپنے وجود کو دریا کی لہروں کے سپرد کر دیتی ہے ۔
صدرِ ذی وقار ! میں ، آپ اور اس محفل کا ہر فرد کتنے ہی واقعات کا چشم دید گواہ ہے اور کتنے ہی مظلوموں پر ہونے والے ظلم اور نا انصافیوں پر خاموش ہیں ۔کبھی عافیہ صدیقی ، کبھی زینب ریپ کیس ، کبھی ڈاکٹر شازیہ خالد تو کبھی کمسن ملازمہ رضوانہ تشدد کیس اور آئے روز کئی ان گنت مقدمات روز اخباری تراشوں کی شہ سرخیاں بنتے ہیں ساحر لدھیانوی نے کہا تھا:
عورتوں نے جنم دیا مردوں کو ، مردوں نے اسے بازار دیا
جب جی چاہا مسلا ،کچلا ، جب جی چاہا دھتکار دیا
صدرِ عالی مرتبت ! جی تو چاہتا ہے کہ کشمیر ، فلسطین ،چیچنیا ، بوسنیا ،لہو لاشے ، کھٹے پھٹے انسان اور اور خون میں رنگی تارکول کی سڑکوں کی بات کرتا مگر آج اس ایوان کے قواعد و ضوابط کے مطابق میرے بولنے کے لیے چار سے پانچ منٹ ہیں اور اتنے قلیل وقت میں تو اپنوں کے لگائے ہوئے زخموں کو دکھانا مشکل ہے اور وں کے قصے کیا چھیڑوں۔
ارباب محفل ! قاتل کوئی اور نہیں ؛تخریب کار کوئی اور نہیں ؛ قصور وار کوئی اور نہیں ۔چلیے ذرا دیر کو تصویر کیجئے قاتل کوئی اور ہے ؛ قصور وار کوئی اور ہے تو پھر نشیمن سوال کرتا ہے ؛خزانے کون خالی کر گیا ؛املاک کس نے نیلام کیں ؛ عہدے کس نے بیچے ؛ اسی ہزار مسلمانوں کا کون کس نے بہایا ؛آئین کی دھجیاں اڑانے والے کون ؛ تخریب کار آپ بھی نہیں میں بھی نہیں ؛ قصور وار و قاتل آپ بھی نہیں میں بھی نہیں تو جلتا نشیمن سوال کرتا ہے:
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
سارے شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
صدر عالی وقار ! میرے اور آپ کے سامنے بہت سے واقعات رونما ہوئے ہیں کیا ہم ان واقعات کے بعد بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں ؟ مظالم کی یہ داستانیں سوال کرتی ہیں تم خلفائے راشدیں کے جانشین ہونے کا دعویٰ کرتے ہو تو دلاؤ انصاف ! ماڈل ٹاؤن کی ان خواتین کو جن کو پنجاب کے محافظوں نے گولیوں کا نشانہ بنا ڈالا۔تم دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہونے کا دعویٰ کرتے ہو تو دلاؤ دہشت گردی میں ہلاک ہونے والے ہر پاکستانی کو انصاف ؛ تم منصفی کا دعویٰ کرتے ہو تو دلاؤ انصاف روزانہ کی بنیاد پر اٹھائے جانے والے لا پتا افراد کو ،پکڑو نامعلوم افراد کو ؛ دلاؤ انصاف ان اساتذہ کو جن پر تم نے آنسو گیس اور لاٹھیوں سے بارش کی ۔
صدر ذی وقار ! منصف انصاف کی زبان بولتا ہے اور جہاں انصاف بولتا ہے وہاں مخلوق خدا خاموش رہتی ہے ۔وہاں ماتم کدے نہیں ہوتے۔وہاں احتجاج کے طوفان نہیں ہوتے۔مگر ذی وقار!
جہاں رہبر رہزن بن جائیں ،جہاں محافظ لٹیرے بن جائیں ؛جہاں رئیسوں کے اربون معاف کر دیے جائیں ؛ اور غریب کی موٹر سائیکل قسطوں کی عدم دستیابی پر ضبط کر لی جائے جس ملک میں سیاستدانوں کے لیے رات کو عدالتیں لگیں پر غریب کو تاریخ پہ تاریخ دی جائے؛ جس ملک میں عدالتوں ، قاضیوں کے دروازے کھٹکھٹکا کر ،یہاں تک کہ لوگ بے گھر ہو جائیں ۔جس دیس میں انصاف کے معیار پر بات کرنے پر توہینِ عدالت لگتی ہو ؛ جس ظلمت کدے میں احتجاج کرنے والوں پر لاٹھیاں ، پتھر اورگولیاں چلائی جائیں ،جہاں ماورائے عدالت قتل ہوں ۔جہاں سپریم کورٹ کی بات ہائی کورٹ ،ہائی کورٹ کے فیصلے کے برعکس سیشن کورٹ فیصلہ کرے ،جہاں سابق وزیر اعظم لوگوں کے درمیان مار دیا جائے ،جس ملک کے بانی کی ایمبولینس خراب ہونے کا ڈراما رچایا جائے، جس ملک میں مادر ملت کی کردار کشی اور غداری کے ازام لگائے جائیں ایسے بچوں کے ہاتھوں میں قلم نہیں ہتھیار ہوتے ہیں کیونکہ :
تجھے اب کس لیے شکوہ ہے کہ بچے گھر نہیں رہتے
جو پتے زرد ہو جائیں وہ پیڑوں پہ نہیں رہتے
یقیناً یہ رعایا ، بادشاہ کو قتل کر دے گی
مسلسل جبر سے محسن دلوں میں ڈر نہیں رہتے
صدر عالی وقار! میں اپنی گفتگو کو سمیٹ رہا ہوں پاکستان کی 76 سالہ تاریخ ، نا انصافیوں ، غندہ گردی ، جمہوریت کے قتل اور جاگیر داروں کی اجارہ داری سے بھری پری ہے ہم کہنے کو اسلامی ریاست ہیں مگر عدلِ عمر کی مثالیں دینے والوں کے ملک کی عدلیہ کا نمبر پہلے 120 ممالک میں بھی نہیں ۔
جناب صدر! اپنے اور ہونے والی ظلم و نا انسافیوں کے خلاف یہ عوام کس سے رجوع کرے کہ جہاں قتل کے ملزم کو باعزت بری کر دیا جاتا ہے جس جگہ ایک غریب اپنے آدھےایکڑ پر ناجائز قبضہ چھڑانے کے لیے ملکِ خدادا کی عدالتوں کے چکروں میں مارا جاتا ہے ۔
صدر ذی وقار ! پاکستان جو ہمیں قائد نے حاصل کر کے دیا اس کی 76 سالہ تاریخ نا انصافیوں سے اس طرح بھری پڑی ہے کہ ہم کہنے پر مجبور ہیں :
اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم ،ترے دشمن ہم ،ترے قاتل ہم
ہم لوگ جو اب تک زندہ ہیں اس جینے پر ہم شرمندہ ہیں
جناب والا ! لوگوں کے بیچوں بیچ قتل ہونے والے لیاقت علی خان، قائد اعظم کا دست و بازو بننے والی مادر ملت فاطمہ جناح ، سقوطِ ڈھاکا کے بعد اب دستِ راست سے محروم پاکستان ، ذولفقار علی بھٹو کی اسکی موت کے بعد کالعدم کی جانے والی پھانسی ، بینظیر جیسے سرِ عام مارا گیا ، وزیرستان اور سوات کے بچے جو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے،اینکروں کی زبان بندی ، اقلیتوں کی توہین اور املاک کا نقصان ، مستونگ اور پارا چنار کے بسوں سے اتار کر مار دیے جانے والے افراد ،ہزارہ اور کوئٹہ کا قتل عام،کراچی میں زندہ جلائے جانے والے 250 لوگ ، حوا کی بیٹیوں سے ریپ جیسے واقعات، ہزاروں ماؤں کے لاپتہ بچے سب چیخ چیخ کے کہہ رہے ہیں :
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی ، منصف بھی
کِسے وکیل کریں ، کس سے منصفی چاہیں
نیچے دیے گئے ڈاؤلوڈ لنک پر کلک کریں
مزید پڑھیے