خواجہ میر دردؔ کی پہلی غزل کی تشریح اردو کے سمارٹ syllabus کے مطابق ؛پنجاب بھر کے انٹر میڈیٹ بورڈز کے طلباء کے لیے
خواجہ میر دردؔ
شعر نمبر:1
کام مردوں کے جو ہیں سو وہی کر جاتے ہیں
جان سے اپنی جو کوئی کہ گزر جاتے ہیں
بنیادی فلسفہ :اس شعر میں قلندرانہ افکار کے ساتھ انسانی عظمت اور جنون شوق کے ہاتھوں جان جیسی متاع کی قربانی کو موضوع بنایا گیا ہے۔
تشریح: خواجہ میر دردؔ اردو کلاسیکی شاعری کے عظیم صوفی شاعر ہیں ۔ جن کی ساری عمر خانقاہ کی خدمت گزاری اور تسلیم و رضا کے فلسفے میں گزری ۔ تصوف اور قلندرانہ مزاج کی وجہ سے ان کی شاعری میں سوز و گداز ، روانی اور تسلسل کے ساتھ نغمگی اور صنائع بدائع کی جھلک نمایاں طور پر ملتی ہے ۔ زیر تشریح شعر میں آفاقی موضوع زیر بحث ہے کہ عظیم لوگ اپنے مقصد کے حصول کے لیے جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ ان عظیم لوگوں کے لیے “مرد” کا استعارہ استعمال کیا گیا ہے۔” مرد “سے مراد ایسے لوگ ہیں جو ظلم و ستم کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن جاتے ہیں۔ عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی مرد کے متعلق کہتے ہیں:
پورے ہیں وہی مرد جو ہر حال میں خوش ہیں
اسی طرح مرد کے لیے کبھی مرد ِکامل ، مرد قلندر اور کبھی مردِ کوہستانی اور بندہ مومن تو کبھی ،فقیر درویش، شیر اور شاہین جیسے استعارے بھی استعمال ہیں۔
“شیر کی ایک دن کی زندگی‘ گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے ” شیر مشرق ٹیپو سلطان
اللہ تعالیٰ کی ذات ِ اقدس نے انسان کو اشرف المخلوق بنایا تو اس نے اپنی زندگی کے معاملات کو چلانے کے لیےعقل وجنون کو اپنا رہبر بنایا۔اس طرح دو مکتبہ فکر ہمارے سامنے آئے۔جنہوں نے آگے چل کر نوع انسانی کی فکری سوچ اور معاشرتی ارتقا کا سنگ بنیاد رکھا۔
1: اہل خرد
2: اہل جنون
صاحب خرد ہمیشہ دنیا کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتا ہے اور اسی لیے ہمیشہ نفع و نقصان اور سود و زیاں کو پیش ِنظر رکھتا ہے ۔ ان کی زندگی کے شب و روز اسی نفع نقصان کی فکر اور پیمائش میں گزر جاتا ہے ۔ اس لیے عظمت ان سے دور بھاگتی ہے کیونکہ یہ آگ میں کودنے سے پہلے تپش کی جانچ کرتے ہیں ، دریا میں کودنے سے پہلے گہرائی کا ناپنا،مقتل میں مقصد کی خاطر جان دینے کی بجائے مصلحت کا شکار ہونا ان کی خصلت بن جاتا ہے۔
لیکن اہل جنون سود و زیاں ، نفع و نقصان سے عاری ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے مقاصد کے لیے مشکلات ، اذیتوں اور مصیبتوں کو اپنے لیے ہمت اور حوصلہ تصور کرتے ہوئے جان دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔اقبال بھی ہمیشہ دل کو عقل پر ترجیع دیتے ہیں۔
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
صوفیاء کے نزدیک پریشانیوں کا مردانہ وار مقابلہ اور بوقتِ ضرورت اپنے محبوب مقصد پر زندگی کو قربان کرنا ہی عشق کی معراج ہے۔
بقول فیض احمد فیض
جس دھج سے کوئی مقتل گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں
بقول مجید امجدٓ
سلام ان پہ تہ تیغ بھی جنہوں نے کہا
جو تیرا حکم جو تیری رضا جو تو چاہے
اس شعر کا دوسرا پہلو بھی ہو سکتا ہے کہ اٹھارویں صدی کے وسط میں دہلی کی افراتفری اور معاشرتی انتشار نے لوگوں کو بے گھر ، ایک ایک لقمے کو محتاج بنا دیا ایسے میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والے ہی مردان ِحق ٹھہرے ۔ میر دردؔ کی شاعری کے مزاج کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے ان کے نزدیک سید احمد بریلوی ، شاہ اسماعیل شہید،سلطان ٹیپواورسراج الدولہ جیسے اکابرین کو اس شعر کا مصداق قرار دیا جا سکتا ہے جو جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان ِ کارزار میں اترے اور جان سے گزر گئے۔
بقول علامہ اقبال
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کِشور کشائی
تو ہم کہ سکتے ہیں کہ مرد ایک وصف ہے جو تصوف کے میدان میں ایک صوفی کو معرفت ِ الہی کی منازل تک پہنچا سکتا ہے اور “جان سے گزر جانا”محاورے کے اندر معنی کے سمندر مخفی ہیں۔اپنی تمناؤں ، خواہشوں اور دلی آرزوؤں کو فراموش کر کے جان کی قربانی اور مردانہ وار اقدامت ہی اس کا اصل اساس ہے۔