اختر شیرانی کی نظم برسات کی تشریح

اختر شیرانی کی نظم برسات کی تشریح

شاعرِ رومان  “اختر شیرانی ” AKHTAR SHEERANIکا اصل نام “داؤد خاں”  تھا ۔ اختر شیرانی ہندوستان کی مشہور ریاست ٹونک میں  4 مئی 1905 ء کو پیدا ہوئے۔ وہ اردو کے عظیم محقق  جیّد عالم   حافظ محمود شیرانی کے اکلوتے بیٹے تھے ۔ اختر شیرانی نے اگرچہ نہایت مختصر عمر پائی۔ وہ 1948ء میں صرف 43برس  کی عمر میں داغِ مفارقت دے گئے ۔ اردو شاعری    میں وجہ شہرت ان کی رومانوی شاعری ہے ۔ اختر شیرانی کو اردو شاعری میں رومانویت کا امام تسلیم کہا جاتا  ہے۔

برسات

گھٹاؤں کی نیلی فام پریاں ، افق پہ دھومیں مچارہی ہیں

ہواؤں میں تھرتھرا رہی ہیں ، فضاؤں کو گُدگُدا رہی ہیں

چمن شگفتہ ، دمن شگفتہ ، گلاب خنداں ، سمن شگفتہ

بنفشہ و نسترن  شگفتہ ہیں  ، پتیاں مسکرا رہی ہیں

شاعر کا نام :       اختر شیرانی

نظم کا نام:                   برسات

مفہوم : نیل گوں گھٹاؤں نے آسمان  پر دھوم مچا  رکھی ہے . ہوائیں اور فضا ؤں سے   اٹھکیلیاں کر رہی ہیں ۔برسات کی آمد نے باغ میں کھلنے والے پھولوں اور کلیوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دی ہے۔

تشریح : اختر شیرانی کی شاعری شباب  ،  رومان اور  حسین خوابوں  کے گرد گھومتی ہے ۔ ان کی شاعری   کا خاصا   فطرت کے حسن و جمال کا بیان  ہے یوں بھی فطرت کی آغوش میں انہیں بڑا سکون ملتا ہے ۔  مناظر فطرت سے  ان کارشتہ محض عشق و شباب ہی کے حوالے سے قائم نہیں ہوتا بلکہ فطرت کی رعنائی اور اس کے مظہراتی حسن و جمال کا ان کی شاعری میں اپنا ایک مقام ہے بادل، بہار، برسات اور چاندنی کے مناظر خاص طور پر انہیں متاثر کرتے ہیں ۔

                تشریح طلب اشعار  شاعر رومان   اختر شیرانی   کی مشہور نظم “برکھا رت ” سے لیے گئے ہیں جن کو سلیبس میں “برسات ” کے نام سے شامل کیا گیا ہے اس نظم برسات  میں برکھارت کے منظر کی دلکش  نقشہ آرائی کرتے ہوئے  شاعر کہتے ہیں کہ بادل آسمان پر نیل گوں پریوں کی صورت میں  ہواؤں اور فضاؤں کو اکسا رہے ہیں چمن کے اندر ہر پھول   کا چہرا ٹھنڈی ہواؤں  کے چلنے کی وجہ سے شگفتہ اور تازہ نظر آ رہا ہے  ۔یہی منظر  نظیراکبر آبادی نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔

برسات کا بج رہا ہے ڈنکا             

اک شور ہے آسماں پے برپا

ہے ابر کی فوج آگے آگے

           اور پیچھے ہیں دل کے دل ہوا کے

ہیں رنگ برنگ کے رسالے                  

گورے ہیں کہیں کہیں ہیں کالے

گھنگھور گھٹائیں چھا رہی ہیں         

جنت کی ہوائیں آ رہی ہیں

 

زیرِ بحث اشعار کے اندر برسات کے موسم میں گھٹاؤں کی آمد ،بادلوں کا رقص ،پھولوں کا مسکرانا اور مظاہرِ فطرت کے حسین مناظر کی عکس بندی کرتا  ہے ۔  شاعر نے ساون کی  گھنگور گھٹاؤں کا آسمان پر رقص کرنے کو پریوں کے رقص سے تشبیہ دی گئی ہے  ان بادلوں کا آنا مستانہ وش  ہواؤں کی طرح ہے جس کو دیکھ کر ہر ذی روح شگفتگی محسوس کرتا ہے۔ نیلے گوں آسمان پر نیلے رنگ کے بادل مسحورکن منظر پیش کر رہے تھے اور یہی منظر علامہ اقبال نے کچھ اس طرح بیان کیا تھا۔

پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن

مجھ کو پھر نغموں پہ اُکسانے لگا مُرغِ چمن

پھُول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار

اُودے اُودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن

ان اشعار کو پڑھ کر قاری تخیل میں کھو جاتا ہے بادلوں کے ساتھ ٹھنڈی ہواؤں کا چلنا  گرمی میں راحت کا سبب محسو س ہونے لگتا ہے۔برسات کا موسم تو شاعروں کا پسندیدہ  موضوع رہا ہےبقول قتیل شفائی

دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا

اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا  

برسات کے آتے ہی گلستان کا منظر بدل جاتا ہے گرمی اور حبس  ایک پل کو چین نہیں لینے دیتے۔  ایسے میں   بادلوں کی آمد  پورے چمن کے باسیوں کے چہروں پر خوشی اور شگفتگی  کے احساس کو اجاگر کر دیتی ہے ۔گلاب سے لے کر  چنبیلی تک بنفشہ سے نسترن تک  گلوں  کی پتیاں مسکرا رہی ہیں ۔تازگی اور شگفتگی ان کے چہروں سے عیاں ہے۔بقول شاعر

چمن سے بھرا باغ ، گُل سے چمن

کہیں نرگس و گل کہیں یاسمن

چنبیلی کہیں اور  کہیں موتیا

کہیں رائے بیل اور کہیں موگرا

کہیں پہ ہیں نسرین کہیں نسترن

عجب رنگ کے زعفرانی چمن

پوری نظم برسات  پرکیف منظر نگاری کے ساتھ ساتھ مبالغہ آمیزی کی وجہ سے مزید حسین و دلکش بن گئی ہے۔الفاظ اور  ترکیب  کی بندش نگینوں سے کم نہیں ہے ان اشعار میں صنعت مراۃ النظیر کے استعمال نے مفہوم کی  دلکشی  کو مزید واضح کر دیا ہے ۔

شعر نمبر 3 اور 4 کی تشریح

یہ مینہ کے قطرے مچل رہے ہیں ، کہ ننھے سیارے ڈھل رہے ہیں

افق سے موتی ابل رہے ہیں ، گھٹائیں موتی لٹا رہی ہیں

نہیں ہے کچھ فرق بحرو بر میں  ، کھنچا ہے نقشہ یہی نظر  میں

کہ ساری دنیا ہے ایک  سمندر ، باریں جس میں نہا رہی ہیں 

 

مفہوم : آسمان سے بارش کے قطرے موتیوں کی صورت   زمین پر برس رہے ہیں بارش کے بعد بہاریں اپنے عروج اور زمین بحر کا روپ دھار لیتی ہے۔

تشریح : اختر شیرانی کی شاعری شباب  ،  رومان اور  حسین خوابوں  کے گرد گھومتی ہے ۔ ان کی شاعری   کا خاصا   فطرت کے حسن و جمال کا بیان  ہے یوں بھی فطرت کی آغوش میں انہیں بڑا سکون ملتا ہے ۔  مناظر فطرت سے  ان کارشتہ محض عشق و شباب ہی کے حوالے سے قائم نہیں ہوتا بلکہ فطرت کی رعنائی اور اس کے مظہراتی حسن و جمال کا ان کی شاعری میں اپنا ایک مقام ہے بادل، بہار، برسات اور چاندنی کے مناظر خاص طور پر انہیں متاثر کرتے ہیں ۔

                تشریح طلب اشعار کے اندر شاعر رومان   اختر شیرانی   کی مشہور نظم “برکھا رت ” سے لیے گئے ہیں جن کو سلیبس میں “برسات ” کے نام سے شامل کیا گیا ہے اس نظم برسات  میں برکھارت کے منظر کی دلکش  نقشہ آرائی کرتے ہوئے کہتے ہیں آسمان سے بارش کے قطرے موتیوں کی بارش کی طرح زمین پر برس رہے ہیں بارش کے بعد بہاریں اپنے عروج اور زمین بحر کا روپ دھار لیتی ہے۔  کہ بادل آسمان پر نیل گوں پریوں کی صورت میں  ہواؤں اور فضاؤں کو اکسا رہے ہیں چمن کے اندر ہر ہر پھول شگفتگی اور تازگی کی وجہ سے مسکرا رہا ہے ۔

فضاؤں میں بہار آنے لگی ہے

خوشی ہر چیز پر چھانے لگی ہے

زیرِ بحث اشعار کے اندر برسات کے موسم میں گھٹاؤں کی آمد ،بادلوں کے رقص ،پھولوں کے کھلنے اور مسکرانےاور مظاہرِ فطرت کے حسین مناظر کی عکس بندی کے بعد  ان بادلوں کا آنا مستانہ وش  دیکھایا گیا ہے جس کو دیکھ کر ہر جاندار  شگفتگی محسوس کر رہا ہے۔ نیلے گوں آسمان پر نیلے رنگ کے بادل مسحورکن منظر پیش کر رہے تھے اور یہی منظر علامہ اقبال نے کچھ اس طرح بیان کیا تھا۔

پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن

مجھ کو پھر نغموں پہ اُکسانے لگا مُرغِ چمن

پھُول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار

اُودے اُودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن

ان اشعار کو پڑھ کر قاری تخیل میں کھو جاتا ہے بادلوں کے ساتھ ٹھنڈی ہواؤں کا چلنا  گرمی میں راحت کا سبب محسو س ہونے لگتا ہے۔برسات کا موسم تو شاعروں کا پسندیدہ   موسم اور موضوع رہا ہےبقول قتیل شفائی

دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا

اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا  

برسات کے آتے ہی گلستان کا منظر بدل جاتا ہے گرمی اور حبس  ایک پل کو چین نہیں لینے دیتے۔  ایسے میں   بادلوں کی آمد  پورے چمن کے باسیوں کے چہروں پر خوشی اور شگفتگی  کے احساس کو اجاگر کر دیتی ہے ۔بارش سے ہر طرف جل تھل ہو جاتی ہے ۔زمین اور سمندر ایک سے دکھائی دینے لگتے ہیں ۔ساری دنیا ایک  سمندر کی صورت اختیار کر لیتی ہے ۔بار بار بارش کے ہونے سے چمن و گلستاں رنگیں  ہو جاتا ہے ۔بقول شاعر

پانی کھیتوں میں پانی گلشن میں ہے

پانی چھت پر ہے پانی آنگن میں

اور

یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا

کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا

پوری نظم برسات  پرکیف منظر نگاری کے ساتھ ساتھ مبالغہ آمیزی کی وجہ سے مزید حسین و دلکش بن گئی ہے۔الفاظ اور  ترکیب  کی بندش نگینوں سے کم نہیں ہے ان اشعار میں صنعت مراۃ النظیر کے استعمال نے مفہوم کی  دلکشی  کو مزید واضح کر دیا ہے ۔

شعر نمبر 5 ور 6 کی تشریح

چمن ہے رنگیں ، بہار رنگیں ، مناظر سبزہ زار رنگیں

ہیں وادی و کوہسار رنگیں ، کہ بجلیاں رنگ لا رہی ہیں

شچمن میں اختر بہار آئی ، لہک کے صوت ہزار آئی

صبا گلوں مہں پکار آئی ، اٹھو گھٹائیں پھر آ رہی ہیں

مفہوم : برسات کے بعد  باغ کی بہاریں  سبزہ زار کے حسن کو دوبالا کر رہی ہیں تو دوسری طرف   میدان وپہاڑ  پر بجلیاں اپنے رنگ بکھیر رہی ہیں ۔اختر شیرانی   صبا کے چلنے اور بہار کے رنگ  دیکھ کر دوبارہ بادموں کے آنے کی نوید دے رہے ہیں ۔

تشریح : اختر شیرانی کی شاعری شباب  ،  رومان اور  حسین خوابوں  کے گرد گھومتی ہے ۔ ان کی شاعری   کا خاصا   فطرت کے حسن و جمال کا بیان  ہے یوں بھی فطرت کی آغوش میں انہیں بڑا سکون ملتا ہے ۔  مناظر فطرت سے  ان کارشتہ محض عشق و شباب ہی کے حوالے سے قائم نہیں ہوتا بلکہ فطرت کی رعنائی اور اس کے مظہراتی حسن و جمال کا ان کی شاعری میں اپنا ایک مقام ہے بادل، بہار، برسات اور چاندنی کے مناظر خاص طور پر انہیں متاثر کرتے ہیں ۔

                تشریح طلب اشعار کے اندر شاعر رومان   اختر شیرانی   کی مشہور نظم “برکھا رت ” سے لیے گئے ہیں جن کو سلیبس میں “برسات ” کے نام سے شامل کیا گیا ہے اس نظم برسات  میں برکھارت کے منظر کی دلکش  نقشہ آرائی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ  برسات کے بعد  باغ کی بہاریں  سبزہ زار کے حسن کو دوبالا کر رہی ہیں تو دوسری طرف   میدان وپہاڑ  پر بجلیاں اپنے رنگ بکھیر رہی ہیں ۔اختر شیرانی   صبا کے چلنے اور بہار کے رنگ  دیکھ کر دوبارہ بادلوں کے آنے کی نوید دے رہے ہیں ۔۔اسی منظر   کونظیراکبر آبادی نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔

برسات کا بج رہا ہے ڈنکا              اک شور ہے آسماں پے برپا

ہے ابر کی فوج آگے آگے           اور پیچھے ہیں دل کے دل ہوا کے

ہیں رنگ برنگ کے رسالے                   گورے ہیں کہیں کہیں ہیں کالے

گھنگھور گھٹائیں چھا رہی ہیں          جنت کی ہوائیں آ رہی ہیں

زیرِ بحث اشعار کے اندر برسات کے بعد کے منظر کو دیکھایا گیا ہے کہ کس طرح برسات نے میدان ،کوہسار اور چمن کو تروتازگی بخشی ہے ۔ موسم میں گھٹاؤں کی آمد ،بادلوں کا رقص ،پھولوں کا کھلنا اور مسکرانا اور مظاہرِ فطرت کے حسین مناظر کی عکس بندی کی گئی ہے ۔ بادلوں کا آنا مستانہ وش  ہے جس کو دیکھ کر ہر ذی روح شگفتگی محسوس کر رہا ہے۔ نیلے گوں آسمان پر نیلے رنگ کے بادل مسحورکن منظر پیش کر رہے تھے اور یہی منظر علامہ اقبال نے کچھ اس طرح بیان کیا تھا۔

پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن

مجھ کو پھر نغموں پہ اُکسانے لگا مُرغِ چمن

پھُول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار

اُودے اُودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن

برسات کے بعد باغوں اور میدانوں میں شگفتگی چھا گئی ہے ۔گلاب کے پھول کھل اٹھے ہیں ۔گلابوں کے مسکرانے پر ان کے عاشق بلبل لہک لہک کر گنگنا رہے ہیں ۔صبا کے چلنے اور بلبلوں کی چہک  نےیہ اعلان کرنا شروع کر دیا ہے کہ برسات کے بادل پھر سے افق پر نمودار ہو رہے ہیں تیار ہو جاؤ۔بقول شاعر

لو گھٹا افق پہ چھانے لگی

بجلی چھپ چھپ کے مسکرانے لگی

اور

فضاؤں میں آگئی ہے روانی

برسات کی رت ہے کیا سہانی

ہم تم ہوں گے بادل ہو گا

رقص میں سارا جنگل ہو گا

PDF DOWNLOADING


اختر شیرانی کے پہلے شعری مجموعے کا نام کیا ہے؟

اختر شیرانی کے پہلے مجموعے کا نام  “پھولوں کے گیت” ہے

اختر شیرانی کے پہلے مجموعہ   “پھولوں کے گیت” کب شائع ہوا ۔

ان کا پہلا  مجموعہ   “پھولوں کے گیت”1936ء میں  شائع ہوا ۔

اختر شیرانی کے  مجموعہ   “نغمہ حرم” کب شائع ہوا ۔

اختر شیرانی کے  مجموعہ   “نغمہ حرم”1939ء میں  شائع ہوا ۔

اختر شیرانی  کا شعری   مجموعہ   “شعرستان ” کب شائع ہوا ۔

اختر شیرانی  کا شعری   مجموعہ   “شعرستان ” 1941 میں شائع ہوا ۔

اختر شیرانی  کا شعری   مجموعہ   “صبح بہار ” کب شائع ہوا ۔

اختر شیرانی  کا شعری   مجموعہ   “صبح بہار” 1945ء میں شائع ہوا ۔

اختر شیرانی  کا شعری   مجموعہ   “اخترستان” کب شائع ہوا ۔

اختر شیرانی  کا شعری   مجموعہ   “اخترستان ” 1946 میں شائع ہوا ۔

اختر شیرانی  کا شعری   مجموعہ   “لالہی طیور” کب شائع ہوا ۔

اختر شیرانی  کا شعری   مجموعہ   “لالہی طیور ” 1947 میں شائع ہوا ۔

اختر شیرانی   کےشعری   مجموعے   “شہناز”  اور” شہروز “کب شائع ہوا ۔

اختر شیرانی   کےشعری   مجموعے   “شہناز”  اور” شہروز ” 1949ء میں  شائع ہوا ۔

اختر شیرانی   کا انتقال کس شہر میں ہوا؟

اختر شیرانی کا انتقال لاہور میں ہوا

اختر شیرانی   کی قبر کس قبرستان میں ہے؟

اختر شیرانی میانی صاحب میں مدفون ہیں

رحمت اللعالمین ﷺ مضمون

اختر شیرانی کی  رومانوی شاعری  

دو چاند ہیں پہلو میں ، اب چاند کہیں کس کو

ساقی کو اگر کہیے ، پیمانے کو کیا کہیے

            میکدہ میں اب بھی ذکر آتاہے مے نوشی کے وقت

کیا خبر تھی ، اخترؔ اتنا پارسا ہوجائےگا

جب رات کی بے کس تنہائی میں، آپ کو تنہا پاتا ہوں

میں بربط دل سے سوز و گدازِ عشق کے نغمے گاتاہوں

اتنا تو بتا دو تم بھی مجھے، کیا میں بھی کبھی یا د آتا ہوں

بتلاؤ کہ منت کرتا ہوںمیں تم سے محبت کرتا ہوں

زمیں پر بھیج دے آج اے بہشت اپنی بہاروں کو

بچھا دے خاک پر اے آسماں اپنے ستاروں کو

خرام و رقص کا دے حکم فطرت ابر پاروں کو

وہ بے خود چاند کی نظروں سے گھبرائے گی وادی میں

سنا ہے میری سلمیٰ رات کو آئے گی وادی میں

تمنا اور حیا کی کش مکش کیوں کر مٹاؤں گا

میں اس کے یاسمیں پیکر کو کیسے گدگداؤں گا

اور اس کے لعل لب سے کس طرح بوسے چراؤں گا

وہ پھولوں اور ستاروں سے بھی شرمائے گی وادی میں

سنا ہے میری سلمیٰ رات کو آئے گی وادی میں

کانٹوں سے دل لگاؤ جو تا عمر ساتھ دیں

پھولوں کا کیا جو سانس کی گرمی نہ سہ سکیں

غم زمانہ نے مجبور کر دیا ورنہ

یہ آرزو تھی کہ بس تیری آرزو کرتے

ان رس بھری آنکھوں میں حیا کھیل رہی ہے

دو زہر کے پیالوں میں قضا کھیل رہی ہے

انہی غم کی گھٹاؤں سے خوشی کا چاند نکلے گا

اندھیری رات کے پردے میں دن کی روشنی بھی ہے

کچھ تو تنہائی کی راتوں میں سہارا ہوتا

تم نہ ہوتے نہ سہی ذکر تمہارا ہوتا

آرزو وصل کی رکھتی ہے پریشاں کیا کیا

کیا بتاؤں کہ میرے دل میں ہے ارماں کیا کیا

کام آ سکیں نہ اپنی وفائیں تو کیا کریں

اس بے وفا کو بھول نہ جائیں تو کیا کریں

اٹھتے نہیں ہیں اب تو دعا کے لیے بھی ہاتھ

کس درجہ ناامید ہیں پروردگار سے

دن رات مے کدے میں گزرتی تھی زندگی

اخترؔ وہ بے خودی کے زمانے کدھر گئے

چمن میں رہنے والوں سے تو ہم صحرا نشیں اچھے

بہار آ کے چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی

تھک گئے ہم کرتے کرتے انتظار

اک قیامت ان کا آنا ہو گیا

کچھ اس طرح سے یاد آتے رہے ہو

کہ اب بھول جانے کو جی چاہتا ہے

خفا ہیں پھر بھی آ کر چھیڑ جاتے ہیں تصور میں

ہمارے حال پر کچھ مہربانی اب بھی ہوتی ہے

زندگی کتنی مسرت سے گزرتی یا رب

عیش کی طرح اگر غم بھی گوارا ہوتا

بھلا بیٹھے ہو ہم کو آج لیکن یہ سمجھ لینا

بہت پچھتاؤ گے جس وقت ہم کل یاد آئیں گے

مانا کہ سب کے سامنے ملنے سے ہے حجاب

لیکن وہ خواب میں بھی نہ آئیں تو کیا کریں

یاد آؤ مجھے للہ نہ تم یاد کرو

میری اور اپنی جوانی کو نہ برباد کرو

اب وہ باتیں نہ وہ راتیں نہ ملاقاتیں ہیں

محفلیں خواب کی صورت ہوئیں ویراں کیا کیا

اب تو ملیے بس لڑائی ہو چکی

اب تو چلئے پیار کی باتیں کریں

محبت کے اقرار سے شرم کب تک

کبھی سامنا ہو تو مجبور کر دوں

مدتیں ہو گئیں بچھڑے ہوئے تم سے لیکن

آج تک دل سے مرے یاد تمہاری نہ گئی

اب جی میں ہے کہ ان کو بھلا کر ہی دیکھ لیں

وہ بار بار یاد جو آئیں تو کیا کریں

مبارک مبارک نیا سال آیا

خوشی کا سماں ساری دنیا پہ چھایا

رات بھر ان کا تصور دل کو تڑپاتا رہا

ایک نقشہ سامنے آتا رہا جاتا رہا

پلٹ سی گئی ہے زمانے کی کایا

نیا سال آیا نیا سال آیا

مٹ چلے میری امیدوں کی طرح حرف مگر

آج تک تیرے خطوں سے تری خوشبو نہ گئی

کسی مغرور کے آگے ہمارا سر نہیں جھکتا

فقیری میں بھی اخترؔ غیرت شاہانہ رکھتے ہیں

عشق کو نغمۂ امید سنا دے آ کر

دل کی سوئی ہوئی قسمت کو جگا دے آ کر

وہ اگر آ نہ سکے موت ہی آئی ہوتی

ہجر میں کوئی تو غمخوار ہمارا ہوتا

اے دل وہ عاشقی کے فسانے کدھر گئے

وہ عمر کیا ہوئی وہ زمانے کدھر گئے

اک دن کی بات ہو تو اسے بھول جائیں ہم

نازل ہوں دل پہ روز بلائیں تو کیا کریں

لانڈری کھولی تھی اس کے عشق میں

پر وہ کپڑے ہم سے دھلواتا نہیں

تمناؤں کو زندہ آرزوؤں کو جواں کر لوں

یہ شرمیلی نظر کہہ دے تو کچھ گستاخیاں کر لوں

ان وفاداری کے وعدوں کو الٰہی کیا ہوا

وہ وفائیں کرنے والے بے وفا کیوں ہو گئے

دل میں لیتا ہے چٹکیاں کوئی

ہائے اس درد کی دوا کیا ہے

مجھے ہے اعتبار وعدہ لیکن

تمہیں خود اعتبار آئے نہ آئے

غم عزیزوں کا حسینوں کی جدائی دیکھی

دیکھیں دکھلائے ابھی گردش دوراں کیا کیا

بجا کہ ہے پاس حشر ہم کو کریں گے پاس شباب پہلے

حساب ہوتا رہے گا یا رب ہمیں منگا دے شراب پہلے

مجھے دونوں جہاں میں ایک وہ مل جائیں گر اخترؔ

تو اپنی حسرتوں کو بے نیاز دو جہاں کر لوں

اک وہ کہ آرزؤں پہ جیتے ہیں عمر بھر

اک ہم کہ ہیں ابھی سے پشیمان آرزو!

اس طرح ریل کے ہم راہ رواں ہے بادل

ساتھ جیسے کوئی اڑتا ہوا مے خانہ چلے

ہے قیامت ترے شباب کا رنگ

رنگ بدلے گا پھر زمانے کا

غم عاقبت ہے نہ فکر زمانہ

پئے جا رہے ہیں جئے جا رہے ہیں

عمر بھر کی تلخ بیداری کا ساماں ہو گئیں

ہائے وہ راتیں کہ جو خواب پریشاں ہو گئیں

کیا ہے آنے کا وعدہ تو اس نے

مرے پروردگار آئے نہ آئے

کس کو فرصت تھی زمانے کے ستم سہنے کی

گر نہ اس شوخ کی آنکھوں کا اشارا ہوتا

اس کے عہد شباب میں جینا

جینے والو تمہیں ہوا کیا ہے

سوئے کلکتہ جو ہم بہ دل دیوانہ چلے

گنگناتے ہوئے اک شوخ کا افسانہ چلے

چمن والوں سے مجھ صحرا نشیں کی بود و باش اچھی

بہار آ کر چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی

پارسائی کی جواں مرگی نہ پوچھ

توبہ کرنی تھی کہ بدلی چھا گئی

او دیس سے آنے والے بتا

کیا اب بھی وہاں کے پنگھٹ پر پنہاریاں پانی بھرتی ہیں

انگڑائی کا نقشہ بن بن کر سب ماتھے پہ گاگر دھرتی ہیں

اور اپنے گھر کو جاتے ہوئے ہنستی ہوئی چہلیں کرتی ہیں

اود یس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا

کیا اب بھی فجر دم چرواہے ریوڑ کو چرانے جاتے ہیں

اور شام کے دھندلے سایوں کے ہمراہ گھروں کو آتے ہیں

اور اپنی رسیلی بانسریوں میں عشق کے نغمے گاتے ہیں

او دیس سے آنے والے بتا

کھجوروں کے حسیں سائے زمیں پر لہلہاتے تھے

ستارے جگمگاتے تھے، شگوفے کھلکھلاتے تھے

عشق و آزادی بہارِ زیست کا سامان ہے

عشق میری جان آزادی مر اایمان ہے

عشق پر کردوں فدا میں اپنی ساری زندگی

لیکن آزادی پہ میرا عشق بھی قربان ہے

سنو یہ کیسی آواز آرہی ہے

کوئی دیہاتی لڑکی گا رہی ہے

اٹھی ہے شاید آٹا پیسنے کو

کہ چکّی کی صدا بھی آرہی ہے

غموں سے چوٗراپنے ننھے دل کو

ترانہ چھیڑ کر بہلا رہی ہے

اے عشق کہیں لے چل اس پاپ کی بستی سے

نفرت گہہ عالم سے، لعنت گہہ ہستی سے

ان نفس پرستوں سے، اس نفس پرستی سے

دور اور کہیں لے چل

اے عشق کہیں لے چل

آخر میں یہ حسرت ہے کہ بتا

وہ غیرت ِ ایماں کیسی ہے

بچپن میں جو آفت ڈھاتی تھی

وہ آفت ِ دوراں کیسی ہے

ہم دونوں تھے جس کے پروانے

وہ شمع شبستاں کیسی ہے

او دیس سے آنے والے بتا

 
دوست کے نام امتحان میں ناکامی پر حوصلہ افزائی کا خط

1 thought on “اختر شیرانی کی نظم برسات کی تشریح”

Leave a Comment