ادیب کی عزت کا سیاق و سباق: انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں حصہ سیاق و سباق میں 100٪ نمبرات کے لیے یہ سیاق و سباق لکھیں۔
ادیب کی عزت کا سیاق و سباق
زیر بحث اقتباس درسی کتاب کے سبق “ادیب کی عزت ” سے لیا گیا ہے جو کہ پریم چند کا مشہورِ زمانہ افسانہ ہے جو ان کی کتاب “آخری تحفہ ” سے ماخوذ ہے ۔ حضرت قمر کی تنگدستی اور کسمپرسی نے ان کو بیسیوں مرتبہ ابالی چائے پینے پر مجبور کر دیا تھا ۔ وہ عرصہ بیس سال سے ایک ایسی کتاب لکھنے کےمرض میں مبتلا تھے جس کی اشاعت ان کو قعر گمنامی سے نکال دے گی ۔ اس کی خوش قسمتی تھی کہ ان کی بیوی سکینہ غربت کے باوجود بہت شاکر اور زمانہ شناس عورت تھی جو ہمیشہ اس کا حوصلہ بڑھاتی تھی ۔ حضرت قمر کو دنیا سے شکایت تھی کہ اسے وہ مقام اور مرتبہ نہیں دیا جس کے وہ حق دار تھے ۔ جس کی وجہ سے اکثر وہ اپنی زندگی سے نالاں رہتے تھے ۔ ایک دن ایک رئیس نے دعوت پر بلوایا تو سارا دن خوشی کے گھوڑے پر سوار اِن خیالات میں مگن رہے کہ اب ان کی ادبی خدمات کا خوب چرچا ہو گا ۔ جو کہ تحسین و آفرین کے ساتھ ساتھ مالی نفع کا باعث بھی بنے گا ۔ دعوت میں حلیے اور لباس کی وجہ سے بار بار ان کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ۔ جس پر وہ دعوت کو ادھورا چھوڑ کر گھر واپس آگئے اور بیوی کے پوچھنے پر صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ ” میں چراغ ہوں اور چراغ کا کام جلنا ہوتا ہے اور آج میں سمجھ گیا کہ ادبی خدمت پوری عبارت ہے۔”