اور آنا گھر میں مرغیوں کا سبق کا خلاصہ

اور آنا گھر میں مرغیوں کا سبق ایک مزاحیہ مضمون ہے۔جس کے مصنف عہدِ جدید کے سب سے بڑے مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی ہیں ۔

 اور آنا گھر میں مرغیوں کا

مصنف : مشتاق احمد یوسفی

خلاصہ

 

مصنف کے شوقِ مرغبانی سے عاری ہونے کا سبب ان کا یہ عقیدہ تھا کہ مرغی کا صحیح مقام پتیلی ، پلیٹ سے ہوتا ہوا  پیٹ ہے ۔

ابنِ آدم مرغیوں کو اس شوق اور تعداد میں کھاتے ہیں کہ مرغیاں کبھی بوڑھی نہیں ہونے پاتیں ۔

دعوتوں میں میزبان کے خلوص کا اندازہ مہمانوں اور مرغیوں کے تناسب سے لگایا جاتا ہے۔

مصنف  کے دوست مرزا عبدالودود مرغِ مسلم کی افادیت کے ساتھ ساتھ ان  کے انڈوں کو  بھی  نعمت سے کم نہیں گردانتے کیونکہ  تازہ خود کھائیں اور گندے انڈے  ہوٹلوں اور سیاست میں کام لے کر آئیں ۔

انڈے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اسے گنوار عورت بھی اچھا پکا لیتی ہے۔بد مزہ انڈا پکانا تقریباً نہ ممکن ہے۔

اگر دس مرغیوں سے باغبانی شروع کی جائے تو ایک محتاط شرح ِ افزائش سے تین سال کے اندر اندر ان کی تعداد ایک کروڑ ساڑھے سینتیس لاکھ تک  ہو جائے گی ایک اور حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ مرغیاں اپنی خوراک کا انتظام خود کر لیتی ہیں ۔

مصنف نے اپنے دوست سے پوچھا کہ اتنی نفع بخش مخلوق وہ ان کے گھر کیوں چھوڑنا چاہتے ہیں تو جواب ملا کہ گھر میں کچھ مہمان آرہے ہیں  اس لیے گھر خالی چاہیے اور اگلے دن ہی مرغیاں مصنف کے گھر آگئیں ۔

انسان  شاید اس لیے جانور پالتا ہے کہ وہ اس کی فرماں برداری کریں جیسا کہ کتے ،  گھوڑے اور ہاتھی وغیرہ کرتے ہیں تاہم مرغیاں اپنے پرائے میں ذرا تمیز نہیں کرتیں کیونکہ  وہ ہر انسان کو قصاب اور ہر چمکتی چیز کو چھری سمجھ کر بدکتی ہیں ۔

صرف یہ کہنا کہ مرغ  صبح کے وقت  اذان دیتا ہے یہ سرا سر  خوش اعتقادی ہے مرغ ہر اس وقت اذان دیتا ہے جو انسان کے سونے کا وقت ہے ۔ دیہاتی لوگ ہمسایوں کے مرغ کی بدولت صبح خیزی کرتے ہیں اگر گھوڑے کی آواز اور جسامت میں وہی تناسب ہوتا جو مرغ کی آواز اور جسامت میں ہوتا ہے تو تاریخی جنگوں کا فیصلہ بغیر توپوں کے ہو جاتا ۔

مرغ اتنا عبادت گزار ہے پھر بھی کبھی طبعی عمر کو نہیں پہنچتا ۔

ایک دن مصنف بارش میں بھیگتے گھر پہنچے تو تین مرغوں کو اپنے پلنگ کی سفید چادر کو داغدار کرتے پایا ۔غصے میں آ کر بیگم سے بولے کہ یہ یہاں کیوں ہیں تو بولیں کہ مرغے بیچارے منہ بھی کھولتے ہیں تو آپ سمجھتے ہیں کہ منہ  چڑا رہے ہیں ۔  کہنے لگے کہ اب اس گھر میں یہ مرغے رہیں گے یا میں ۔ بیگم نے رنجیدگی سے کہا کہ اس بارش میں آپ کہاں جائیں گے ۔

تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ مرغیاں کیڑے مکوڑے کھانے سے کس طرح باز نہیں آتیں جن کا اثر انڈوں میں ویسے ہی ہوتا ہے جیسے چارے کا دودھ میں ۔

یہ ڈربے کے علاوہ ہر جگہ خوش رہتی ہیں ۔ ان کی خوش الحانی سے اکثر ٹیلی فون میں بھی فون کرنے والوں کو ان کی ہی آواز جاتی ہے ۔

مرغیوں کے آنے سے اچھابھلا گھر مرغی خانہ بن جاتا  ہے جہاں انسان بھی رہ سکتے ہیں ۔  پریشان حال لوگوں کو چاہیے کہ مرغیاں پال لیں اس سے ان کو اپنی گزشتہ زندگی جنت معلوم ہوگی۔

 

اور آنا گھر میں مرغیوں کا

Leave a Comment