اوورکوٹ سبق کا خلاصہ

اوورکوٹ سبق مشہورِ زمانہ افسانہ ہے جس کو غلام عباس نے لکھا ہے  غلام عباس کے افسانوں کی خوبی ان کے کرداروں میں ثنویت کا پایا جانا ہے  ۔ جس  سے مختلف کرداروں کے ظاہری اور باطنی  تضادات کو ظاہر کیا جاتا ہے ۔

 

اوورکوٹ

افسانہ نگار: غلام عباس

خلاصہ

غلام عباس اپنے افسانے “اوورکوٹ ” میں ایک ایسے  خوش پوشاک نوجوان کی کہانی بیان کرتے ہیں جو جنوری کی ایک  شام ، جاڑے کے موسم میں ڈیوس روڈ سے مال روڈ کی طرف خراماں خراماں  آتے ہوئے دیکھائی دیتا ہے۔

جس کا رخ چیرنگ کراس کی طرف ہوتا ہے ۔نوجوان اپنے حلیے سے  ایک امیر گھر کا چشم و چراغ نظر آتا ہے کیونکہ اس کے چہرے پر  باریک باریک مونچھیں اور جسم پر بادامی رنگ کا اوورکوٹ ، سر پر ٹوپی ، گلے پر سفید سلکی گلوبند اور ہاتھ میں بید کی چھڑی اس کے بانکپن کی نمائندگی کر رہی تھی ۔

یہ نوجوان   سرد ہوا سے بے نیاز ہو کر فٹ پاتھ پر  چل رہا تھا اسی دوران تانگے والے اور ٹیکسی والے  رکے لیکن اس کے اشارے سے چلتے بنے ۔

باغِ جناح  کی طرف آتے  ہوئے   منہ سے مختلف قسم کی  فلمی گانوں کی دھنیں  نکالتا ہوا ایک بینچ پر آ کر بیٹھ گیا اور  کھیلتے ہوئے  بچوں کو گھورنے لگا تو بچے  اپنی گیند اٹھا کر وہاں سے  بھاگ گئے ۔

بینچ پر بیٹھ کر اس نے  لوگوں کے چہروں کی بجائے ان کے لباس کو  بغور دیکھنا شروع کر دیا ۔ سگریٹ والے سے 10 روپے کی ریزگاری مانگی  اور بعد میں  ایک اکنی کی سگریٹ لے کر  کش لگانے لگا ۔

ایک بار پھر اس نے  مٹر گشت شروع کردیا اب وہ مال روڈ کے بارونق حصہ میں پہنچا ۔ وہاں پر تمام قماش کے لوگوں کا رش تھا ان میں سے بہت سارے  وہ غریب لوگ اور خونچہ فروش تھے جو ایک ریسٹورنٹ کے سامنے کھڑے ہو کر دوسرے لوگوں کی طرح آکسٹرا  سے نکلنے والی   دھنیں سن رہے تھے  ۔ 

پھر ایک بک سٹال پر پہنچ کر مختلف رسالوں کی ورق گردانی کرنے لگا اس کے بعد نوجوان  ایک قالین والی دکان پر پہنچا اور دوکاندار سے ایک قالین کی بابت پوچھا اور بعد میں آنے کا کہہ کر چلتا بنا ۔

چلتے چلتے اب وہ ہائی کورٹ کی بلڈنگ کے سامنے پہنچ چکا تھا لیکن ابھی بھی اس کی چونچالی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا اس نے اپنی انگلیوں پر بید کی چھڑی کو گھمانے کی کوشش کی تو وہ نیچے گر گئی ۔

اپنے ارد گرد کی دنیا سے بے نیاز ہوکر جب وہ سڑک کراس کر رہا تھا تو اینٹوں سے بھری ہوئی ایک لاری نے اسے بری طرح روند ڈالا ۔

اسے فوری طور پر میو ہسپتال پہنچایا گیا اس شام شعبہ حادثات میں ڈاکٹر خان اور نرسیں مس گل اور مس شہناز ڈیوٹی پر تھے ۔

 

اوورکوٹ زیب ِتن کیے ہوئے یہ نوجوان آخری سانسیں لے رہا تھا ۔ سنگ مر مر کے فرش پر لٹانے کے بعد سب سے پہلے اس کا اوورکوٹ اتارا گیا تو نرسیں یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ اوورکوٹ کے نیچے نکٹائی تو دور کی بات سرے سے قمیض بھی نہیں تھی  ۔

نیچے صرف ایک بوسیدہ سویٹر اور پھٹا ہوا  بنیان   اور اس کے نیچے جسم پر میل کی تہیں جمی ہوئی تھیں ۔  البتہ گلے پر خوب پاؤڈر چھڑکا ہوا تھا رسی نما ٹائی سے بندھی پتلون گھٹنوں سے پھٹ  چکی تھی ۔

چمکتے ہوئے جوتوں کے اندر سے بے جوڑ جرابوں  میں سے میلی ایڑھیاں جھانک رہی تھیں۔

وہ دم توڑ چکا تھا کپڑے اتارنے  کے دوران اس کا چہرہ  بھید  کھل جانے کے  ڈر سے اپنے  ہم جنسوں سے آنکھیں چراتے ہوئے دیوار کی طرف مڑ گیا تھا ۔

اس کے اووکوٹ کی جیبوں سے ایک کنگھا ، ساڑھے چھ آنے ، بجھا ہوا آدھا سگریٹ ، ایک ڈائری ، گراموں فون ریکارڈوں کی ایک فہرست اور اشتہارات برآمد ہوئے  ۔  افسوس! اس حادثے میں اس کی بید کی چھڑی کہیں گم ہوگئی۔

PDF DOWNLOADING

0 thoughts on “اوورکوٹ سبق کا خلاصہ”

Leave a Comment