ایبسٹریکٹ آرٹ،تجریدی آرٹ،سید محمد جعفری

سید محمد جعفری فطری طور پر ایک مزاحیہ شاعر تھے مزاح نگاری میں طنز ان کا خاصا تھا ویسے بھی طنزومزاح کو منظوم کرنا بہت مشکل کام ہےان کی شاعری کے پیش نظر مریض نہیں بلکہ مرض ہوتا ہے شاعر اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر یہ پیغام دیتا ہے کہ کسی چیز کی خوبیوں اور خامیوں کو جانچے بغیر تعریف نہیں کرنی چاہیے۔ایبسٹریکٹ آرٹ اٹھائیس اشعار پر مشتمل نظم ہے جو ان کی مشہور کتاب “شوخئ تحریر سے لی گئی ہے۔

 

نظم کا نام :        ایبسٹریکٹ آرٹ

شاعر:            سید محمد جعفری

تشریح : سید محمد جعفری   فطری طور پر ایک مزاحیہ   شاعر تھے مزاح نگاری  میں طنز ان کا خاصا تھا   ویسے بھی طنزومزاح کو منظوم کرنا بہت مشکل کام ہےان کی شاعری  کے پیش نظر مریض نہیں بلکہ مرض ہوتا ہے شاعر اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر یہ پیغام دیتا ہے کہ کسی چیز کی خوبیوں اور خامیوں کو جانچے بغیر تعریف نہیں کرنی چاہیے۔ایبسٹریکٹ آرٹ  اٹھائیس اشعار پر مشتمل  نظم ہے جو  ان کی مشہور کتاب “شوخئ تحریر سے لی گئی ہے۔

پکاسو   دور جدید کا سب سے بڑا تجریدی آرٹ کا  مصور اور موجد تھا جو   سپین  میں پیدا ہوا۔ پکاسو کے  باپ اکیڈیمی آف آرٹس میں پروفیسر تھا۔ تجریدی آرٹ کی بات کی جائے تو اس  میں مصور اپنے جذبات و احساسات کا اظہار اکثر آڑھی ترشی لکیروں اور رنگوں کے ذریعے کرتا ہے  لیکن ایک عام ناظر کے لیے  یہ فن ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہوتا۔

شاعر موصوف کو ایک نمائش پر جانے کا اتفاق ہوا ، رسم دنیا نبھاتے ہوئے انھوں نے وہاں فن پاروں کی تعریف بھی کر ڈالی ان دونوں غلطیوں کی سزا  اس طرح ملتی ہے کہ  اب انہیں ڈراونے خواب آنے لگتے ہیں جن میں انہیں وہی تصویریں خوف زدہ کرتی رہتی ہیں جو انہوں نے  نمائش میں دیکھی تھیں. اس طرح  ان کی نیند اور سکھ چین برباد ہو جاتا ہے۔

کہیں پہ ٹانگ ٹیڑھی ہے’ کہیں پہ آنکھ ٹیرھی ہے

یہ تجریدی  نہیں ہے  اس کو تخریبی کہا جائے

 کیونکہ جب کوئی اس نمائش کے بارے میں سوال کرتا ہے تو شاعر  کچھ بھی بتانے سے قاصر ہیں  ، وہاں کمالِ فن کا نمونہ وہ تصویر تھی  جس میں شاید بھینس کے جسم پر اونٹ کی سی گردن لگائی گئی تھی   اس کی ٹانگیں مسواک سی پتلی اور ناک  کی طرح  خطرناک تھیں۔ایک اور شہ پارہ محض رنگوں کا  ایک بے ہنگم مجموعہ تھی جس پر موجود آڑی ترچھی لکیریں کسی شکستہ آئینے سے منعکس ہونے والی کرنیں معلوم ہوتی تھیں ۔فنِ تجرید کے ایسے عجیب الخلقت نطارے دیکھ کر وہاں آئے بچے اپنی ماؤں سے لپٹے جاتے تھے انصاف کا تقاضا یہی تھا اپنی اس تقصیر کو معاف  نہ کیا جائے یہ نمائش حقیقت میں کسی دیوانے کا خواب تھی۔

کیسی تصویر بنائی مرے بہلانے کو

اب تو دیوانے بھی آنے لگے سمجھانے کو

PDF DOWNLOADING

 

روداد کیسے لکھیں
روداد کیسے لکھیں

ایبسٹریکٹ آرٹ

 

ایبسٹریکٹ آرٹ کی دیکھی تھی نمائش میں نے

کی تھی ازراہِ مروّت بھی ستائش میں نے

آج تک دونوں گناہوں کی سزا پاتا ہوں

لوگ کہتے ہیں کہ کیا دیکھا تو شرماتا ہوں

صرف کہہ سکتا ہوں اِتنا ہی وہ تصویریں تھیں

یار کی زلف کو سلجھانے کی تدبیریں تھیں

ایک تصویر کو دیکھا جو کمالِ فن تھی

بھینس کے جسم پر اک اونٹ کی سی گردن تھی

ٹانگ کھینچی تھی کہ مسواک جسے کہتے ہیں

ناک وہ ناک خطرناک جسے کہتے ہیں

نقشِ محبوب مصوّر نے سجا رکھا تھا

مجھ سے پوچھو تو تپائی پہ گھڑا رکھا تھا

یہ سمجھنے کو کہ یہ آرٹ کی کیا منزل ہے

ایک نقّاد سے پوچھا جو بڑا قابل ہے

سبزہء خط میں وہ کہنے لگا رعنائی ہے

میں یہی سمجھا کہ ناقص مری بینائی ہے

بولی تصویر جو میں نے اُسے الٹا پلٹا

میں وہ جامہ ہوں کہ جس کا نہیں سیدھا الٹا

اُس کو نقاد تو اِک چشمہء حیواں سمجھا

میں اسے حضرتِ مجنوں کا گریباں سمجھا

ایک تصویر کو دیکھا کہ یہ کیا رکھا ہے

ورقِ صاف پہ رنگوں کو گرا رکھا ہے

آڑی ترچھی سی لکیریں تھیں وہاں جلوہ فگن

جیسے ٹوٹے ہوئے آئینے پہ سورج کی کرن

بولا نقاد جو یہ آرٹ ہے تجریدی ہے

آرٹ کا آرٹ ہے تنقیدی کی تنقیدی ہے

تھا کیوب ازم میں کاغذ پہ جو اک رشکِ قمر

مجھ کو اینٹیں نظر آتی تھیں اُسے حسنِ بشر

بولا نقّاد نظر آتے یہی کچھ ہم تم!

خُلد میں حضرتِ آدم جو نہ کھاتے گندم

ابسٹریکٹ آرٹ بہر طور نمایاں نکلا

“قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا“

وہ خدوخال کہ ثانی نہیں جن کا کوئی آج

بات یہ بھی ہے کہ ملتا نہیں رنگوں کا مزاج

دیر تک بحث رہی مجھ میں اور اس میں جاری

تب یہ ثابت ہوا ہوتی ہے یہ اِک بیماری

اس کو کیوب ازم کا آزار کہا کرتے ہیں

اس کے خالق جو ہیں بیمار رہا کرتے ہیں

ایبسٹریکٹ آرٹ کے ملبے سے یہ دولت نکلی

جس کو سمجھا تھا انناس وہ عورت نکلی

ایبسٹریکٹ آرٹ کی اس چیز پہ دیکھی ہے اساس

“تن کی عریانی سے بہتر نہیں دنیا میں لباس“

اس نمائش میں جو اطفال چلے آتے تھے

ڈر کے ماؤں کے کلیجوں سے لپٹ جاتے تھے

ایبسٹریکٹ آرٹ کا اِک یہ بھی نمونہ دیکھا

فریم کاغذ پہ تھا کاغذ جو تھا سُونا دیکھا

وہ ہمیں کیسے نظر آئے جو مقسوم نہیں

“لوگ کہتے ہیں کہ ہے پر ہمیں معلوم نہیں“

ڈر سے نقادوں کے اِس آرٹ کو یوں سمجھے تھے ہم

“شاہدِ ہستئ مطلق کی کمر ہے عالم“

الغرض جائزہ لے کر یہ کیا ہے انصاف

آج تک کر نہ سکا اپنی خطا خود میں معاف

میں نے یہ کام کیا سخت سزا پانے کا

یہ نمائش نہ تھی اِک خواب تھا دیوانے کا

کیسی تصویر بنائی مرے بہلانے کو

اب تو دیوانے بھی آنے لگے سمجھانے کو

( شاعر:  سید محمد جعفری )

 

Leave a Comment