بچپن ایک سنہری دور/bachpan ek sunhari dor

بچپن ایک سنہری دور smart syllabus کا سب سے اہم مضمون ہے ۔ اس مضمون کو مختلف موضوعات مثلاً “بچپن ایک سنہری دور” , “میرے بچپن کے دن” ، ” بچپن کی یادیں” , “بچپن کا سنہری دور” , “بچپن ایک یادگار دور” , “بچپن کی شرارتیں ” ، “بچپن ایک  انمول دور “اور “میرے بچپن کے دن” کے طور پربھی سالانہ امتحانات میں پوچھا جا سکتا ہے ۔ 

بچپن ایک سنہری دور

میرے بچپن کے دن، کتنے اچھے تھے دن

آج بیٹھے بٹھائے کیوں یاد آ گئے

بچپن کا زمانہ ایک نایاب اور انمول خزانہ ہے جس کے کھو جانے کا زندگی بھر افسوس رہتا ہے۔بچپن خوبصورت یادوں ،معصوم شرارتوں اور بے فکری کی زندگی کا دور ہوتا ہے ۔ بچپن دادا   دادی  کی گود سے دیومالائی کہانیوں  سننے اور آنگن میں آنے والی تتلیوں کاپیچھا کرتے گزر جاتا ہے ۔ والدین کے چہروں پر  بچوں کی  معصوم شرارتیں  مسکراہٹ کا باعث بنتی ہیں ۔ کہنے کو بچپن کا لفظ صرف چار حروف پر مشتمل ہے لیکن حقیقت میں  ایک ایسا   سنہری دور ہے جو اپنے اندر   دلکش اور دلربا  یادیں لیے ہوئے ہوتا ہے۔

انگریزی کے مشہور شاعر جان ملٹن  نے ” بچپن ” کو ’’جنّتِ ُگمشدہ‘‘ یعنی کھوئی ہوئی جنّت قرار دیا ہے۔

ایسی جنت جس میں بچپن کا ایک ایک لمحہ   دلربا  معصوم اداؤں ،نادانیوں اور اٹھکیلیوں میں گزر جاتا ہے۔ میں اپنے بچپن کو یاد کرتا ہوں تو مجھے آج بھی  اپنے بہن بھائیوں سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑے  اور چند لمحات کے بعد خوش گپیوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ یاد آجاتا ہے۔سکول کے ابتدائی دن جب   ماں  ہوم ورک کے لیے  ساری شام ہمارے ناز نکھرے اٹھانے میں گزار دیتی تھی۔شام کو والد صاحب ہماری پسند کے پھل اور کھلونے لے کر آتےتو  میں  اپنے کھلونوں کو گلی کے دوستوں کو دیکھانے کے لیے بیتاب رہتا تھا۔اب  اکثر تنہائی میں مجھے میرا بچپن بے اختیار یاد آنے لگتا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ ابھی اور اسی وقت کسی نہ کسی طرح اپنے  حسین  بچپن میں پہنچ جاؤں ۔  بقول شاعر

شب ہائے عیش کا وہ زمانہ کدھر گیا

وہ دن کہاں گئےوہ زمانہ کدھرگیا

بچپن کے کھیل کود،جوانی کے ذوق و شوق

سب خُواب ہُو گئِے ، فسانے میں ڈھل گیا

میری طرح ہر  بچے کا بچپن موج مستی کا زمانہ ہوتا ہے نہ کسی قسم کی کوئی ذمہ داری اور نہ ہی کوئی ٹینشن ۔ صبح کو سکول جانا  ،کلاس میں دوستوں کے ساتھ شرارتیں ۔دوپہر کو سکول سےواپسی ،   شام کو گلی میں دوستوں کے ساتھ کھیل کود  اور رات کو ٹیلی وژن  پر ڈرامے دیکھنا ۔ٹی وی دیکھتے دیکھتے سو جانا  صبح کو ماں کی آواز سن کر جاگنا ۔ آج وہ زمانہ  ایک سہانا خواب لگتا ہے ۔ بچپن کی حسین یادیں تا عمر انسان کے دل ودماغ کے نہاں خانوں میں جگمگاتی رہتی ہیں۔بقول شاعر

وہ اینٹوں کی وکٹیں وہ ٹوٹا سا بلّا

وہ گلیوں کی  رونق وہ اپنا محلہ

وہ جیبوں میں سِکے مچاتے تھے شور

امیری کے دن وہ ،وہ مٹی کا گّلا

اے بچپن بتا تو کہاں کھو گیا ہے

یا کہہ دے تو اب  بڑا ہو گیا ہے

سب سے زیادہ مزہ تو اس وقت آتا تھا  جب گرمیوں کی چھٹیوں میں تمام کزن نانی کے گھر میں جمع ہوتے ۔   دن رات کھیل کود میں مصروف رہتے ،بارشوں میں نہانا  اور کاغذ کی کشتیوں کو  پانی میں چلانا ، کچی مٹی کے گھروندے اور گھگو گھوڑے بنانا  ، نانی کے ہاتھوں  گرما گرم  پروٹھے اور   نانا ابو کا سب کو قلفیاں کھلانا  آج بھی بہت یاد آتا ہے ۔ گھر کے صحن میں دانہ ڈال کر  چڑیوں کو پکڑنا ، کھیتوں سے جا کر  تازہ سبزیاں لے کر آنا  آج بھی یاد ہے۔لیکن وہ زمانہ اب کسی قیمت پر  بھی ملنے کا نہیں ۔بقول شاعر

دُولت بھی، لِے لُو، یہ شُہرت بھی ، لِے لُو

بھلے چھین لُو مجھ سے میری جوانی

مگر مُجھ کو لُوٹا دو بچپن کا سَاون

وہ کاغذ کی کَشتی  وہ بارش کا پانی ٍ

 موسمِ گرما کی چھٹیاں ہوتے ہی  گلی محلوں کی رونقیں آباد ہو جاتی تھیں ۔  سارا دن گلی میں   دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنا  ۔ محلے کے گھروں کی بیل بجا کر بھاگ جانا  ؛ لوڈ شیڈنگ کے دوران محلے کے دوستوں کے ساتھ کبھی  فٹ بال ، کبھی  ہاکی  اور  کبھی لڑکیوں کی طرح  رسی  کودنا ۔ دوستوں اور کزنز کا پکڑن پکڑائی ، لُڈو  ، سٹاپو  ، برف پانی اور چور سپاہی کا کھیل کھیلنا بھی شامل تھا ۔

خوبصورت سماں تھا بچپن میں

دوست سارا جہاں تھا بچپن میں

ہم سا کوئی نہیں ہے دنیا میں

ہاں یہ غالب گماں تھا بچپن میں

چھیڑ کر ہسنا، ہنس کہ رو دینا

دل بڑا ناتواں تھا بچپن میں

بچپن میں معصومیت کا یہ حال تھا کہ پیسوں سے جیب خالی ہوتی تھی لیکن دل محبت سے بھرا ہوتا تھا۔مل بانٹ کر کھانے کا رواج تھا۔دوست اور بھائی میں کوئی فرق نہیں تھا۔حسد ، لالچ دشمنی کس چڑیا کانام ہے معلوم نہ تھا ۔ایسا فرشتوں جیسا  بچپن تھا نہ کوئی دیکھلاوا ،نہ خود نمائی نہ جاہ جلال کا شوق ،نہ شہرت ، نہ دولت اور نہ حکمرانی کے خواب  ۔ تھی تو بس بے فکری تھی معصومیت تھی  ۔

عمرِ رواں پھر نہیں مسکرائی بچپن کی طرح

میں نے گُڑیا بھی خریدی، کھلُونے بھی لِے کَر دیکھے

کاش میرا بچپن لوٹ آئے یہ ہر شخص کے دل کی آواز ہے کیونکہ ہر شخص اپنے حسین  بچپن کے گزر جانے کا دکھ لیے ہوئے ہے ۔لیکن قانونِ خداوندی ہے کہ گیا وقت پھر لوٹ کر نہیں آتا ۔اب ہمیں بچپن کی یادوں کے سہارے ہی زندہ رہنا ہوگا ۔

میرے بچپن کے دن کتنے اچھے تھے دن

آج بیٹھے بٹھائے کیوں یاد آگئے

میرے بچھڑوں کو مجھ سے ملا دے کوئی

میرا بچپن کسی مُول لا دے کوئی

کتنی بے لُوث تھی اپنی وہ دوستی

کتنی معصوم تھی  وہ ہنسی وہ خُوشی

جُھومتے گاتے   ہنستے ہنساتے

اک دوجے پہ جان  لٹُاتے

کاش پھر وہ زمانے  دکھا دے کوئی

میرا بچپن کسی مول  لا دے کوئی

سب کے سب وہ فسانے سنا دے کوئی

میرا بچپن کسی مول لا دے کوئی

———————

میرا بچپن ہی مجھے یاد دلانے ، آئے

پھر ہتھیلی پہ کوئی نام لکھانے ، آئے

لُوٹ لے آ کِے مری صبح کی میٹھی نیندیں

میں کہاں کہتا ہوں وہ مجھ کو جگانے ، آئے

میرے آنگن میں نہ جگنو ہیں نہ تتلی نہ گلاب

کوئی آئے بھی تو اب کس کے بہانے ، آئے

دیر تک ٹھہری رہی، پلکوں پہ یادوں کی برات

نیند آئی تو کئی خواب سہانے ، آئے

 

11 thoughts on “بچپن ایک سنہری دور/bachpan ek sunhari dor”

  1. محترم بلاشبہ یہ مضمون اچھا لکھا ہے بس اختتامی متن کو مزید توسیع دیں، اس سے اختتام بہتر ہو جائے گا . شکریہ.

    Reply

Leave a Comment