جوش ملیح آبادی کی نظم سراغِ راہرو کا خلاصہ

جوش ملیح آبادی کی نظم سراغِ راہرو کا خلاصہ: سراغِ راہرو  بارھویں جماعت  سرمایہ اردو ( اردولازمی ) کی پانچویں نظم  ہے ۔ جس کے شاعر جوشؔ ملیح آبادی  ہیں اور یہ نظم ان  کی کتاب “سرودوخروش” سے لی گئی ہے ۔  بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن پنجاب کے تمام بورڈزکے سالانہ امتحانات میں سب سے زیادہ اسی  نظم  کا خلاصہ  آتا ہے ۔

شاعر: جوش ملیح آبادی

سراغِ راہرو

خلاصہ

کسی راستے پر لکیر کے نشان سے معلوم ہوجاتا ہے کہ کوئی سانپ ادھر سے گزرا ہے ۔راستے میں چاند کی طرح کے قوس والے نشانوں سے گھڑسواروں کے گزرنے کا پتہ چلتا ہے  ۔ راستے میں اڑتی گرد سے خبر ملتی ہے کہ کوئی خوش رفتار ،سخت کوش وہاں سے گزرا ہے ۔  یوں قدموں کے نشان ہی ، ہر مسافر کے جانے کی خبر دیتے ہیں ۔ جس طرح کسی سنگ تراش کے بغیر کسی مورتی کا تصور ممکن نہیں  ۔ بالکل اسی طرح کسی راہرو کے بغیر پیروں کے نشاں نہیں بنتے ۔ یہ کہکشاں بھی  ایک راستہ  کی مانند ہے جہاں چاند اور سورج بھی کسی کے قدموں کے نشانوں کی طرح ہیں یہ حسین تارے اسی جادہ کی گرد ہیں ۔ یہ ستارے جو آسمانوں کی خوبصورتی اور زمین کے لیے روشنی کا سامان ہیں یہ بھی کسی تیز رو کے راستے کا گردوغبار ہیں ۔

 

Leave a Comment