خواجہ میر درد ؔ کی غزل کی تشریح/Khwaja Mir Dard

خواجہ میر دردؔ کی پہلی غزل کی تشریح اردو کے سمارٹ syllabus  کے مطابق ؛پنجاب بھر کے انٹر میڈیٹ بورڈز کے طلباء کے لیے

شعر نمبر:2

موت! کیا آکے فقیروں سے تجھے لینا ہے

مرنے سے آگے ہی ، یہ لوگ تو مر جاتے ہیں

بنیادی فلسفہ:  اولیاء کرام کا نعرہ ہے موتوقبل أن تموتو  ( مرنے سے پہلے مرجاؤ)  اس وقت تک معرفت ،الہی کی تکمیل نہیں ہوتی جب تک انسان مرنے سے پہلے مر جاؤ کا پریکٹیکل ورک نہیں کر لیتاـ

تشریح:شاعر خواجہ میر دردؔ اہل تصوف کی زندگیوں میں خودی کی انتہائی بلندیوں تک رسائی کے لیے  نفس امارہ کی موت کو کلیدی اہمیت دیتے ہیں ۔ تزکیہ نفس اصل میں انسانی خواہشات کو مارنا ہے جس میں زندگی اور موت کا فرق مٹ جاتا ہے ۔ اگر نفس ِ امارہ کی موت سے پہلے طبعی موت آجائے تو صوفی کی زندگی ناکام سمجھی جائے گی اسی لیے تصوف کے راستے  کی منازل ، مشاہدات ، عبادات اور ریاضتوں کے بغیر  پانا   نا ممکن ہے ۔فقیر جانتے ہیں اصل میں  عشق حقیقی میں موت ، فنا ہونا نہیں بلکہ انتقال ہے ۔ مادی جسم کا خاتمہ اور روح کا عالم ارواح میں منتقل ہونا ہی اصل  مقصد زندگی ہے۔حضرت سلطا ن باہو ؓ فرماتے ہیں۔

کیتی جان حوالے رب دے، اساں ایسا عشق کمایا ہُو
مرن تو اگے مر گئے باہو، تاں مطلب نوں پایا ہُو

حقیقت میں اہل تصوف دنیا سے تعلق کو توڑ کر خالق حقیقی سے ملا لیتے ہیں ۔ وہ تسلیم و رضا کی ایسی عملی صورت بن جاتے ہیں کہ دنیاوی لذتیں ، جاہ حشمت ، ما ل ودولت  ، منصب و عہدے  اور آسائشیں ان سے کوسوں دور ہو جاتی ہیں ۔ دنیا سے وہ اتنا ہی تعلق بنا ئے رکھتے ہیں کہ روح اور جسم کا رشتہ قائم رہ سکے ۔ اپنے ہر قول اور فعل میں رضائے الہی کے متمنی ہوتے ہیں موت ان کے  اور خدا کے درمیان ایک پردے سے زیادہ کچھ نہیں ہے اس لیے وہ ہمیشہ عالم ارواح کے سفر کے لیے تیار رہتے ہیں ۔ خواہشات اور دنیاوی حرص  سے منہ موڑنا  اصل مقصدِ حیات ٹھہرتا ہے۔ انسانی وجود کے بارے میں اہل تصوف کا نقطہ نظر یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی ذات ِ اقدس کا حصہ ہے اسی لیے جزو کا کل میں ضم ہو جانا اصل مقصد ِ حیات ہے۔

بقول احمد ندیم قاسمی

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا

میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

اور

کون کہتا ہے کہ مومن مر گئے

قید سے چھوٹے اپنے گھر گئے

یہی موت سے پہلے مرنا ہے ۔ دردؔ اسی لیے استفہامیہ انداز اپناتے ہوئےموت سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں موت تجھے فقیروں سے کیا لینا ہے؟ حق سچ بھی یہی ہے کہ موت اصل میں صوفی کے امتحان  کی آخری منزل ہے۔صوفی کے لیے محض رسم دنیا ہے۔

1 thought on “خواجہ میر درد ؔ کی غزل کی تشریح/Khwaja Mir Dard”

  1. السلام و علیکم ! سر براے مہربانی تمام اسباق کے خلاصہ جات اور تشریح بمہ سياق و سباق نظموں اور غزلیات کی تشریح بھی اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ کر دیں آپ کی بہت عنایت ہو گی ۔

    Reply

Leave a Comment