خواجہ میر درد ؔ کی غزل کی تشریح/Khwaja Mir Dard

خواجہ میر دردؔ کی پہلی غزل کی تشریح اردو کے سمارٹ syllabus  کے مطابق ؛پنجاب بھر کے انٹر میڈیٹ بورڈز کے طلباء کے لیے

شعر نمبر:5

ہم کسی راہ سے واقف نہیں ، جوں نورِنظر

رہنما تو ہی تو ہوتا ہے ، جدھر جاتے ہیں

بنیادی فلسفہ:  انسانی آنکھوں کا نور اور دنیا میں رہنمائی اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کے بغیر   ممکن  نہیں ہے۔

تشریح:  “فلسفہ جبر و قدر” صوفیا  ، فلسفیوں اور دانش وروں کا پسندیدہ موضوع رہا جس میں انسان اپنی تقدیر کے ہاتھوں مجبور ہے اور وہ تدبیر سے قسمت کو  نہیں بدل سکتا ہے ۔ دردؔ  بطور صوفی شاعر مسئلہ جبر کے قائل ہیں اور انسان اس دنیا میں ایک غلام جیسا ہے جو اپنے آقا کے احکامات کو بجا لانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتا ۔ دنیا اور آخرت کی ساری  راہنمائی اور ہدایت کے لیے انسان ہمیشہ ہدایت ِ الٰہیہ کا محتاج رہتا ہے۔خواجہ میر دردؔ ایک اور جگہ پر اسی موضوع کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں۔

جوں نورِ نظر تیرا تصور

تھا پیشِ نظر جدھر گئے ہم

اور

تھا  عالم   ِ جبر   کیا   بتاویں

کس طور سے زیست کرگئے ہم

جبر و قدر یعنی یہ کہ انسان مجبور ہے یا صاحب اختیار ، یہ مسئلہ ہمیشہ سے فلسفیوں میں زیر بحث رہا ہے ۔ بلکہ ایک گروہ کا خیال ہے کہ انسان اپنی مرضی کا مالک نہیں ہے بلکہ اس کی مرضی اس کی تعلیم و تربیت اور خارجی حالات و تاثرات سے متعین ہوتی ہےاور میر تقی میر بھی  فلسفہ جبروقدر کے بارے میں کہتے ہیں۔

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

 نورِنظر  سے مراد اللہ  تعالی کی ذاتِ اقدس ہے ۔آنکھ انسانی جسم میں رہنمائی میں معاون اور مدد گار ہوتی ہے اور اس آنکھ کی بینائی اللہ تعالی ہی کی مرہون ِمنت ہے ۔ اگر نور نظر کی ترکیب پر غور کریں تو اس کا مطلب صاحبِ بصیرت ہونا بھی ہے جو آگاہی اور اچھے بُرے کا شعور دیتا ہے ۔ انسان سائنسی ترقی میں جتنا بھی ترقی کر لے وہ قدرت کے آگے ہمیشہ عاجز اور مجبور ہی رہے گا ۔ اس  کی مثال نظر (آنکھ)  کے نور سے دی گئی ہے کہ نور کے بغیر آنکھ سے دیکھنا نہ ممکن ہے لیکن دوسری طرف جس کی آنکھ اس نور سے منور ہو جائے اس کے سامنے کوئی راز ہستی راز نہیں رہتا ۔ ظاہری آنکھ کے علاوہ ایک باطنی آنکھ بھی ہے  یہی باطنی نور  اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کو محسوس کرواتا ہے کیونکہ اللہ کی ذات اقدس کوئی مادی وجود نہیں رکھتی ۔ انسان اپنی پیدائش سے لے کر موت تک اسی فلسفہ جبروقدر کے تحت زندگی گزارتا ہے۔

بقول ابراہیم ذوقؔ

لائی حیات  آئے   قضا لے چلی    چلے

اپنی خوشی سے     آئے  نہ  اپنی خوشی سے چلے

اقبال نے فلسفہ جبر و قدر  کے قائل نہیں ہیں انھوں نے اس کی وضاحت کی انتہاء کر دی، یہاں تک کہ انسان کو تقدیر کی قید سے آزاد کر دیااصول صرف ایک ہی بتایا کہ احکام الٰہی کی پابندی اختیار کر لو پھر تم جو چاہو حاصل کر سکتے ہو۔

تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند

1 thought on “خواجہ میر درد ؔ کی غزل کی تشریح/Khwaja Mir Dard”

  1. السلام و علیکم ! سر براے مہربانی تمام اسباق کے خلاصہ جات اور تشریح بمہ سياق و سباق نظموں اور غزلیات کی تشریح بھی اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ کر دیں آپ کی بہت عنایت ہو گی ۔

    Reply

Leave a Comment