خواجہ میر درد ؔ کی غزل کی تشریح/Khwaja Mir Dard

خواجہ میر دردؔ کی پہلی غزل کی تشریح اردو کے سمارٹ syllabus  کے مطابق ؛پنجاب بھر کے انٹر میڈیٹ بورڈز کے طلباء کے لیے

شعر نمبر:7

تا قیامت نہیں مٹنے کا دل عالم سے

دردؔ ہم اپنے عوض چھوڑے اثر جاتے ہیں

بنیادی فلسفہ:  قیامت تک  میری شاعری کا اثراس دنیا کے دل سے نہیں مٹے گا۔

تشریح: زیر تشریح شعر میں شاعر “شاعرانہ تعلی ” کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میری شاعری  ، میرا عشق اور میرے کارنامے تا قیامت میرا نام زندہ رکھیں گے ۔ خواجہ میر دردؔ  نہ صرف ایک صوفی شاعر بلکہ ان کر سرخیل ہیں انھوں نے اردو شاعری میں تصوف کو فروغ دیا اور ایسے آفاقی نظریات متعارف کروائے جن کا سہرا صرف انھی  کے سر  ہے ۔  عظیم لوگ ہی ایسا کام کرتے ہیں جس کا معترف زمانہ ہو جاتا ہے۔ اس شعر میں “اثر”  سے مراد خصوصیات،خوبیاں اور رعنائی خیال ہے۔

شعر دراصل ہے وہی حسرتؔ

پڑھتے ہی دل میں جو اتر جائے

علامہ اقبال بھی اہل علم و فن کی تعریف کرتے ہوئے ان کو  دنیا کے لیے صاحب ایجاد قرار دیتے ہیں   اور ایسے لوگوں کے گرد زمانہ ہمیشہ طواف کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

جو عالمِ ایجاد میں ہے صاحبِ ایجاد
ہر دَور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ

خدائے سخن میر تقی میر ؔنے  بھی شاعرانہ تعلی کا تذکرہ اس طرح کیا ہے۔

پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ

مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں

اس شعر کے متعلق ایک روایت بھی ہے کہ میر دردؔ کا چھوٹا بھائی اثرؔ تخلص کیا کرتا تھا  ۔ تو ہم کہہ سکتے ہیں میر دردؔ اپنے بعد اپنے چھوٹے بھائی اثرؔ  کو دنیا میں اپنے پیغام کے فروغ کے لیے چھوڑے جارہے ہیں۔لیکن یہ روایت بہت کمزور ہے.

1 thought on “خواجہ میر درد ؔ کی غزل کی تشریح/Khwaja Mir Dard”

  1. السلام و علیکم ! سر براے مہربانی تمام اسباق کے خلاصہ جات اور تشریح بمہ سياق و سباق نظموں اور غزلیات کی تشریح بھی اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ کر دیں آپ کی بہت عنایت ہو گی ۔

    Reply

Leave a Comment