دلاور فگار کی نظم لوکل بس کا خلاصہ

دلاور فگار  کی نظم لوکل بس  کا خلاصہ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن پنجاب کے تمام بورڈز کے سالانہ امتحانات میں وقتاً فوقتاً  آتا رہتا  ہے ۔

دلاور فگار  کی نظم   لوکل بس   کا خلاصہ بہت اہم ہے ۔نظم لوکل بس ”  گیارھویں  جماعت  سرمایہ اردو ( اردو لازمی ) کی بارھویں  نظم   ہے ۔

شاعر: دلاور فگار

لوکل بس

خلاصہ

کراچی شہر کی ایک لوکل بس کا اندرونی منظر : جو خوش نصیب بس میں سوار تھے ۔ ان میں سے کوئی تو لٹکے ہار کے خشک پھولوں جیسی صورت لیے بیٹھا تھا اور کوئی دیوار کے سائے کی طرح بے حس وحرکت کی تصویر بنا ہوا تھا ۔  کوئی احساس گناہ کا مارا  دیکھائی دیتا تھا ۔  تو وہ بے گناہ قیدی معلوم ہوتا تھا ۔ کسی کے جوتے کا ایک پاؤں غائب تھا ۔  تو کسی کے پاؤں میں کسی دوسرے کا لکڑی کا جوتا آ گیا ۔ لوگ کنڈیکٹر کی جان کو رو رہے تھے کہ وہ گاڑی کو کیوں نہیں چلاتا ۔ کچھ سواریاں دوگنا کرایہ دینے کو اور کچھ مرنے مارنے کو تیار بیٹھی تھیں اور  کندیکٹر کی ہوسِ دنیا کو باعث تاخیر جان کر اسے لعن طعن کرنے میں سکون پا رہی تھی ۔ جلد ہی کندیکٹر کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اور وہ بھی پھٹ پڑا  ۔  کہنے لگا جو بس میں آ گیا ہے وہ اب واویلا نہ کرے ۔ بس میں تو وہی لوگ سفر کرتے ہیں جن کو جان سے زیادہ پیسے پیارے ہوتے ہیں ۔  نازک اندام تو گاڑیوں میں پھرتے ہیں ۔ شور شرابہ کرنے سے بس نہیں چلے گی اور رعب جمانے کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔ کیونکہ وہ بھی کشمکش  حیات سے تنگ آچکا ہے۔

 

Leave a Comment