دو دوستوں کے درمیان گداگری ایک لعنت کے موضوع پر ایک مکالمہ

دو دوستوں کے درمیان گداگری ایک لعنت کے موضوع پر ایک مکالمہ

 (سعد اور حماد   دو دوست  ایک ہی آفس میں کام کرتے ہیں ۔آفس ٹائم کے بعد حماد سعد کو  اس کے گھرچھوڑنے گاڑی پر جارہا ہے  ۔راستے میں ان کی گاڑی ایک ٹریفک اشارے پر رکتی ہے تو ایک فقیر  تیزی سے ان کی گاڑی کے پاس پہنچتا ہے)

 

فقیر : (درد بھری آواز میں)  صاحب اللہ کے نام  پر میری  مدد کریں۔ میں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا

سعد :(اپنا پرس نکال کر  بیس روپے نکالتا ہے)  یہ لو بھائی!

حماد : ارے سعد !  یہ کیا کر رہے ہو؟

سعد : بھائی غریب کی مدد کر رہا ہوں ۔

حماد : میرے بھائی یہ غریب نہیں بلکہ  پیشہ ور  بھکاری ہیں؟

سعد :(بات کاٹتے ہوئے) پیشہ ور بھکاری  ؟ میں سمجھا نہیں؟

حماد : دوست تم بھی بڑے بھولے ہو۔یہ لوگ مجبوری کے تحت نہیں بلکہ بطورِ پیشہ بھیک مانگتے ہیں ۔اسی لیے ان کو پیشہ ور بھکاری کہا ہے۔

سعد :لیکن دوست میں نے تو  غریب  سمجھ کراس کی مددکی ہے ۔

حماد : ان کا یہی  حلیہ تو ان کے مکروہ دھندے کو چھپا لیتا ہے۔

 

                                (اشارہ کھلتے ہی حماد گاڑی کو آگے بڑھا دیتا ہے اور گفتگو جاری رہتی ہے)

سعد : دوست میں نے تو اس کی اس لیے مدد کی تھی کہ اسلام بھی غریب اور محتاج لوگوں کی مدد کا کہتا ہے ۔

حماد :اسلام میں بلاضرورت کسی سے مانگنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے ۔ حدیث نبوی کے مفہوم کے مطابق

”بلا ضرورت لوگوں کے سامنے جس نے ہاتھ پھیلائے وہ قیامت والے دن ایسے حاضر ہوگا

کہ اس کے چہرےپر گوشت نہیں ہوگا محض ہڈی ہوگا“۔

سعد : اس کے علاوہ ایک اور بھی حدیث ہے۔۔۔۔۔ (حماد  بات کاٹتے ہوئے)

حماد :    “اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے” یہی حدیث تمھارے  ذہن میں آئی تھی؟

سعد:                        گداگری کی وجوہات کیا ہیں ؟

حماد :   پیشہ وارانہ گداگری کے علاوہ غربت، افلاس، بےروزگاری، بیماری، ذہنی و جسمانی معذوری، قدرتی آفات

اور جنگیں عام طور پر گداگری کا باعث ثابت ہوتی ہیں۔

سعد :  بہت خوب  ! لیکن دوست اگر اسلام میں اس کی ممانعت کی گئی  ہے تو اس سے چھٹکارا کیسے پایا جا سکتا ہے ؟

حماد :  اس  کے لیے  ساری سول سوسائٹی کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

سعد : معاشرے  پر گداگری کے کیا اثرات پڑتے ہیں ۔

حماد : زیادہ سے زیادہ لوگ جب اس دھندے میں آنا شروع ہوتے ہیں توآہستہ آہستہ معاشرہ  بے حس ہونا شروع ہو جاتا ہے  غیرت و حمیت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے بھیک نہ ملنے پر محنت کی بجائے  چوری جیسے کاموں کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔

سعد : لیکن ہمیں کیسے معلوم ہو گا  کون سا شخص ضرورت مند ہے اور کون  پیشہ ور گداگر ہے؟

حماد :اس کے لیے ہمیں دیکھنا ہو گا  کہ اگر کوئی معذوری ہے تو اس کا سبب پیدائشی ہے یا کسی حادثے نے معذور کر دیا ہے ۔

سعد : مجھے تو ہر گداگر ایک جیسا ہی  لگتا  ۔وہی پرانے کپڑے اور بدحال  چہرے

حماد :بڑی  عمدہ  بات کی ،  اسی  کا  توفائدہ اٹھاتے     ہیں اکثر  مانگنے والے   گداگری کا چوغہ زیب تن کر کے ہی   دھوکا دیتے ہیں ۔

سعد :میں نے تو اکثر بچوں کو بھی سگنلز پر بھیک مانگتے ہوئے دیکھا ہے

حماد : یہ ایک منظم گروہ ہوتا ہے جو اکثر غریب بچوں کے ساتھ ساتھ اغوا شدہ بچوں کو اپاہج بنا کر اس گھناﺅنے کام میں لگا دیتے ہیں۔

سعد : مجھے اب ایسے لگنا شروع ہو گیا ہے یہ ایک مافیا ہے جو اپنے لبادے کو ہی اپنا ہتھیار بنا لیتا ہے۔

حماد : بالکل صحیح کہا۔گداگروں نے اپنے اپنے علاقے مختص کر رکھے ہیں۔یہ چھوٹی موٹی چوری چکاری سے بھی باز نہیں آتے۔

اکثر اوقات گھروں میں ڈکیتیوں کے پیچھے بھی ان گروہوں کا تعلق نکلتا ہے

سعد :گداگری کی لعنت کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟

حماد : گداگری کی لعنت کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ غیر مستحق لوگوں کو بھیک دینا بالکل روک دینا چاہئے

سعد : اس کے علاوہ؟

حماد : خیرات وغیرہ دینے کے لیئے اپنے عزیز و اقارب اور محلے میں ضرورت مندوں کو ڈھونڈھیں

کیونکہ ایسا حکم اسلام اور شریعت میں بھی دیا گیا ہے۔

سعد : حکومتی سطح پر کیا کیا جا سکتا ہے ؟

حماد :حکومتی سطح پر ایسے فلاحی مرکز بنائے جا سکتے ہیں جن میں ان غریب لوگوں کو کوئی ہنر سکھایا جائے اور  تمام ضروریات زندگی مہیا کی جائیں ۔تاکہ ان کو  مانگنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔

سعد : اس کے علاوہ؟

حماد :اس ضمن میں چند گزارشات حکومتِ وقت  کو پیشِ نظر رکھنی چاہیے چند ایک یہ ہیں :

  • مستحق افراد کے لیے وظیفہ مقرر کرے ۔
  • مستحق صحت مند لوگوں کو روزگار فراہم کرے
  • جبکہ پیشہ ور بھکاریوں اور ان کے ٹھیکداروں کو گرفتار کریں۔
  • بھکاریوں کو کوئی ہنر سکھائیں اور انہیں محنت و مشقت کرنے کی عادت ڈالی جائے تاکہ حلال طریقے سے کما کر اپنے بچوں کا پیٹ پال سکے۔

سعد :حماد بھائی اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں ہاتھ سے کمانے کی ہمت دے۔

حماد : آمین

سعد :بھائی! آج تو آپ نے میری معلومات میں بہت اضافہ کیا اور آئندہ میں بھی ان گداگروں کی حوصلہ شکنی کروں گا۔

حماد : قرآن پاک میں محنت سے رزق حلال کمانے  والوں کی بہت عزت ہے  اس کے  لیےآیا ہے

“الکاسب حبیب اللہ” یعنی محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے

حماد : (گاڑی روکتے ہوئے) لو جی آپ کا سٹاپ آگیا۔                                                              

سعد : بہت  شکریہ دوست (گاڑی سے باہر نکلتے ہوئے) خدا حافظ!

حماد : خدا حافظ!

 

(حماد  سعد کو اتارنے کے بعد اپنے گھر کی طرف روانہ ہو جاتا ہے  )

 

Leave a Comment