روداد نویسی ،روداد کیسے لکھیں؟ روداد لکھنے کے اصول

روداد نویسی
روداد  : روداد‘‘ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے لفظی معنی ہیں :  ماجرا، احوال، کیفیت، واقعہ ،  سرگذشت  یا  عدالت کی کاروائی کے ہیں
روداد : اصطلاح میں  روداد سے مراد کسی تقریب، میلے، جلسے یا حادثے کا آنکھوں دیکھا حال غیر جانب دارانہ انداز میں تحریر کرنا ہے۔
روداد کو  انگریزی زبان میں ’’رپورٹ‘‘ (Report) کہتے ہیں۔

٭ روداد لکھنے  کا طریقہ  اور  اصول  :-

دن کی افادیت یا ادارہ کی شاندار روایات کے تذکرے سے روداد نویسی کا آغاز کیا جائے۔
روداد نویسی میں سب سے پہلے موضوع بحث ؛   دن ،تقریب  یا شخصیت کا تعارف کروایا جائے ۔
تاریخ،مقام اور تقریب میں شرکت کرنے والے حاضرین کا تعارف اور جوش وخروش کا ذکر کیا جائے۔
منعقدہ تقریب کے مقام کی سجاوٹ  اور صفائی کا تذکرہ کیا جائے ۔
معزز مہمانوں کی آمد پر پُر تپاک استقبال کا ذکر کیاجائے ۔
تقریب کے مہمان خصوصی یا صدارت کرنے والی شخصیت کا تعارف کروایا جائے۔
تقریب کا آغاز تلاوت قرآنِ مجید اور نعت رسول ﷺ سے کروایا جائے۔
روداد نویسی میں حالات و واقعات اور کیفیات کا  غیر جانب داری سے   اظہار کیا جائے۔
روداد نویسی میں بے جا طوالت اور اختصار سے احتراز کیا جائے۔( یعنی روداد نہ زیادہ طویل ہو کہ قاری  بوریت محسوس  کرے  اور نہ ہی  زیادہ مختصر کہ تشنگی کا احساس ہو)
روداد نویسی میں من و عن ہی بیان کرنے کی کوشش کی جائے اور  حتی الوسع  مبالغہ آرائی سے گریز کیا جائے۔
اپنی پسند یا ناپسند کو بالائے طاق رکھ کر غیر جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے روداد قلم بند کی جائے۔
روداد کے جملہ اُمور میں ربط اور ترتیب کا خیال رکھا جائے۔ چاہے الفاظ ہوں، خیالات ہوں، نظریات ہوں، یا معلومات…… سب میں ایک ربط اور ترتیب کا ہونا ضروری ہے ۔
روداد میں تسلسل، دلچسپی اور سب سے بڑھ کر اول تا آخر ایک وحدت ہو کہ اس کے جزئیات الگ الگ اور بے جان الفاظ کامجموعہ نہ ہوں۔
روداد اس انداز میں لکھی جائے کہ اس کے دور رس اثرات اور نتائج مرتب ہوں۔
اہم شخصیات اور مہمان خصوصی کی تقاریر کے اہم نکات کو روداد کا حصہ بنایا جائے۔
روداد نویسی کا سوال 10 نمبرات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور اس کی طوالت  3  صفحات   یا 300 الفاظ پر مشتمل  ہو تی ہے  ۔

روداد نویسی کی مثالیں  روداد نویسی کی اقسام

سال اول کے سلیبس میں اہم موضوعات ہیں۔

کالج میں منعقدہ سیرت النبی کانفرنس ،یوم اقبال ، یوم قائد ،یوم دفاع  ،  یوم پاکستان  ، کشمیر ڈے ،  مشاعرے،مباحثے  ، مذاکرے  ، جلسے   ، میچ یا تقریب تقسیم ِانعامات کی روداد ۔

اردو رسید نگاری

نعتیہ  مشاعرے کی روداد

“انجمن غلامانِ مصطفیٰ ﷺ”  کے زیرِ اہتمام   گورنمنٹ  گریجوایٹ کالج  الف ۔ ب ۔ج میں   یکم دسمبر 2024ء   بروز  ہفتہ صبح 9 بجے کالج ہا ل میں نعتیہ مشاعرے  کا  انعقاد    کیا گیا ۔ جس کی صدارت کے لیے عظیم نعت گو شاعر جناب عبد العزیز خالد کو مدعو کیا گیا۔ اس مشاعرے میں شرکت کے لیے کالج ہذا کے طلباء اور مہمان نعت خواں شاعروں کو بھی  بھی مدعو کیا گیا تھا ۔   سوشل میڈیا پر اس مشاعرے کی خوب تشہیر کی گئی تھی ۔ اس لیے طلبا کے علاوہ شہر بھر سے  عاشقان مصطفیٰ ﷺ  سے کالج  ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کالج میں ہونے والی اس تقریب میں تمام طلبہ مؤدب نظر آ رہے تھے، کیونکہ ذکر اس ذات اقدس کا  تھا جس کی بارگاہ نیاز میں جنید بغدادی  جیسے بزرگ  بھی سانس روکے رہتے ہیں ۔  بقول شاعر :
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آج کی اس تقریب سعید کے لیے کالج کے مرکزی “اقبال  ہال ” کو خصوصی طور پر سجایا گیا تھا  ۔ سٹیج پر قالین اور ان پر سفید براق  چادریں  بچھائی   گئی تھیں ۔   گاؤ تکیوں  سے مزین  سٹیج  پر تقریب میں شرکت کرنے والے جملہ نعت گو شعرا  اور  نعت گو طلبہ کو جلوہ  افروز ہونے کی درخواست کی گئی۔  نقابت کے فرائض پروفیسر سرفراز احسن  ادا کر رہے تھے۔انھوں نے مظفر وارثی کے ان اشعار سے  مشاعرے کا باقاعدہ آغاز کیا۔
کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے      وہی خدا ہے
دکھائی بھی جو نہ دے نظر بھی جو آرہا ہے  وہی خدا ہے
نظر بھی رکھے ، سماعتیں بھی ، وہ جان لیتا ہے نیتیں بھی
جو خانہ لاشعور میں بھی جگمگا رہا ہے    وہی خدا ہے
اس تقریب سعید کے پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن حکیم سے کیا گیا۔ تلاوت کی سعادت سال اول کے طالب علم  قاری  محمد سعد  نے حاصل کی ۔ قرآت کے بعد سال دوئم کے طالب علم  وحید اختر  نے بارگاہ رسالت مآب میں ہدیہ نعت پیش کیا۔ اُن کی طرف سے پڑھے گئے اس شعر کو شرکاء محفل نے خوب  پسند کیا :
خدا کی رضا  مصطفیٰ  کی رضا ہے
نبی  کی رضا میں خدا کی رضا ہے
اسلامیات کے  پروفیسر  جناب حسن  ملتانی    نے نہایت عقیدت سے اپنی ایک نعت پیش کر کے اس نعتیہ مشاعرے کا باقاعدہ آغاز کیا ۔  اس کے بعد  محترم
 مہمان شعرا میں جناب اقبال عظیم نے ترنم سے اپنی نعت پیش کی جب یہ اشعار پڑھے تو محفل میں ہر آنکھ اشکبار تھی۔
اے مدینہ کے زائر خدا کے لیے داستان سفر مجھ کو یوں مت  سنا
بات بڑھ  جائے گی دل تڑپ جائے گامیرے محتاط آنسو چھلک جائیں گے
ضرور! ضرور ! حاضرین محفل کے دلوں سے دعا نکلی اور مائک ابوالامتیاز مسلم  کے سامنے آگیا۔ ان کی نعت مکمل انہماک  اور تو جہ سے سنی گئی یوں محسوس ہوتا تھا کہ ان کے دل سے نکلنے والی ہر آواز سامعین کے دلوں میں اترتی جارہی ہے اور لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ دین ودنیاوی سرخروئی اس ایک دور سے وابستہ ہے۔
اپنے بھاگ جگانے والے کیسے ہوں گے
اُن سے ہاتھ ملانے والے کیسے ہوں گے
دوسرے  نعت خواں   افتخار عارف  کے پاس پہنچا انہوں نے مدینے کے راہی کو مخاطب کر کے اپنی فریاد در نبوی ﷺ تک پہنچانے  کی سعی کی۔
اپنے آقا کے مدینے کی طرف دیکھتے ہیں
دل الجھتا ہے تو سینے کی طرف دیکھتے ہیں
سال دوم کے طالب علم راشد منہاس نے حفیظ تائب کی ضرب المثل نعت   کے اشعار اس ترنم اور عقیدت سے پڑھے کہ پورا ہال عقیدت اور تعظیم  کے اظہار کے ساتھ ساتھ داد تحسین دیے بغیر نہ رہ سکا  ۔
 اب جناب منور بدایونی آئے جو نبی اکرم ﷺ کے حضور نعت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات پر فخر کر رہے تھے کہ ہم سب نبی آخر الزمان کے امتی ہیں۔ اُن کے یہ اشعار بہت پسند کیے گئے:
کس سےمانگوں تمھارے سوا یا نبی
درد دل کی دوا ، مرحبا مرحبا
پرنسپل صاحب نے حضور اکرم ﷺ   کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ حضور اکرم ﷺ   قر آن کا  مجسم آئینہ ہیں ۔ آپ دونوں عالموں کے لیے بخشش کا ذریعہ ہیں ۔آخر پر  اجتماعی دعا  کے  لیے پروفیسرابو بکر  مدنی کو مدعو کیا گیا۔۔  کیا خوب صورت اندازِ بیان تھا  الفاظ کا چناؤ اور  رسیلا لہجہ اور  پر سوز ادائیگی اللہ اللہ  ۔حاضرین و سامعین  کبھی بے اختیار رور ہے ہیں۔ کبھی  فریاد کر رہے ہیں ۔۔۔ دعا ہوتی رہی ۔ سامعین روتے رہے یہاں تک دکھی دلوں کو قرار آگیا دعا کا جواب آگیا۔ اور سبھی  پرسکون ہو گئے ۔ 12 بجے یہ درود و سلام کی محفل اختتامی  مراحل میں داخل ہوئی تو   جناب پرنسپل محمد نسیم   صاحب   ،صدر بزم اسلامیات مفتی محمد اعظم صاحب  اور سٹیج  سیکرٹری پروفیسر سرفراز احسن   نے شر کا اور حاضرین تقریب کا شکریہ ادا  کیا ۔اس با برکت محفل کا دورانیہ تین  گھنٹوں پر مبنی تھا  وقت گزر تا چلا گیا  مگر احساس تک  نہ  ہوا ۔ سبھی عشق نبی  ﷺمیں مگن  رہے  ۔ مد ہوش اور جذب و مستی   کی اسی کیفیت میں سال اول کے نعت خواں انور جلیل  نے  حضرت فاضل بریلوی کا لکھا ہوا نذرانہ سلام  پڑھنا شروع کیا۔ تو سب کھڑے ہو گئے اور ادب و احترام سے سرور کائنات کے حضور سلام پیش کرنے لگے۔
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام
سلام کے بعد مٹھائی تقسیم کی گئی ۔ ہم  رحمتوں کی  جھولیاں بھر کر خوش و خرم حسین یادیں سمیٹتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔

 

روداد کیسے لکھیں
روداد کیسے لکھیں

1 thought on “روداد نویسی ،روداد کیسے لکھیں؟ روداد لکھنے کے اصول”

Leave a Comment