سفارش سبق کا خلاصہ

سفارش سبق احمد ندیم  قاسمی کا شاہکار افسانہ ہے ۔ سفارش افسانے کا موضوع معاشرے میں پائے جانے والے طبقاتی فرق کو نمایاں کرنا ہے ۔ فیکا غریب اور بابو جی امیر طبقے کا نمائندہ کردار ہے۔

سفارش

افسانہ نگار: احمد ندیم قاسمی

خلاصہ

مصنف لکھتے ہیں کہ وہ ایک دن محلے کی بڑی گلی کے موڑ پر تانگے کا انتظار کر رہے تھے ۔لیکن کوئی تانگا موجود نہیں تھا ۔

اتنے میں فیکا کوچوان پیدل آتے ہوئے نظر آتا ہے  ۔ اس کی آنکھیں سرمے سے محروم اور جگراتے کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھیں ۔معلوم ہوا اس کے باپ صدیقے نے ایک نیم حکیم سے سرمہ لے کر آنکھوں میں لگایا جس سے آنکھوں کی سرخی میں تو فرق نہ پڑا لیکن  تکلیف بڑھ گئی تھی ۔

گھریلو ٹوٹکوں سے اس کے باپ کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی تھی۔ساری رات گھر میں تڑپتے ہوئے گزری تو فیکا بھی ساری رات نہ سو سکا ۔صبح ایک دو ہسپتالوں کے دھکے کھانے کے بعد کسی چوکیدار کی سفارش سے میو ہسپتال کے ایک برآمدے میں  جگہ ملی ۔ لیکن شام تک کسی ڈاکٹر نے اس کی آنکھوں کا معائنہ نہیں کیا ۔

فیکا چاہتا تھا کہ مصنف اس کے باپ کے لیے اس کے ساتھ چل کر کسی ڈاکٹر سے سفارش کر دیں تاکہ اس کے باپ کا علاج شروع کیا جاسکے ۔

مصنف نے اپنے ایک ڈاکٹر دوست عبدالجبار کا پتا دیا جو کہ  میو ہسپتال میں ڈاکٹر تھے ۔اور صبح خود ڈاکٹر سے ملنے کا وعدہ کیا ۔ اس کے بعد مصنف کو ایک تانگا مل گیا اور فیکا بھی خوشی خوشی چلا گیا ۔جب مصنف میو ہسپتال کے سامنے سے گزر رہا تھا تو اس نے فیکے کو چوکیدار سے باتیں کرتے ہوئے دیکھا اسی دوران مصنف نے ڈاکٹر جبار کو موٹر سائیکل پر جاتے ہوئے دیکھا تو آواز دی لیکن وہ نہ سن سکے ۔

شام کو گھر پر آنے  پر معلوم ہوا کہ فیکا آیا تھا ۔ دوسری صبح فیکا آیا تو  اس نے بتایا کہ  اس کے باپ نے دسمبر کی  وہ رات بھی برآمدے میں گزاری ۔ اور  ڈاکٹر جبار  کی ڈیوٹی  رات کی بجائے آج  دن کی ہے مجھے شیخوپورہ جانا تھا  تو میں نے ایک کارڈ پر سفارشی تحریر لکھ دی ۔کہ غریب آدمی ہے اس کی مدد کر دیجئے گا ۔

چار دن بعد جب مصنف لوٹے تو فیکا  آ موجود ہوا اور بتایا کہ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات نہیں ہو سکی ۔ مصنف نے جھوٹ موٹ کہ دیا کہ انھوں نے ٹیلی فون کردیا تھا جس پر مصنف کو  بعد میں ان کو ندامت ہوئی کہ انھوں نے جھوٹ کیوں  بولا ۔ رات کی نیند نے یہ ندامت کا داغ بھی دھو ڈالا ۔ صبح فیکے نے بتایا کہ اس کہ باپ کو کوٹ لکھپت ہسپتال بھیج دیا ہے۔

اس موقع پر انھوں نے ڈاکٹر جبار کو فون بھی کیا لیکن بدقسمتی سے وہ فون پر نہ ملے۔چھ دن بعد فیکا ملا تو مصنف نے اپنی ندامت چھپانے کے لیے  اس کے باپ کی آنکھوں کے  آپریشن کے متعلق پوچھا صرف یہ دیکھانے کے لیے  جیسے انھوں نے بہت کوشش کی ۔ اس نے بتایا کہ آپریشن ہو گیا ہے اور جمعے کو پٹی کھلنے والی ہے ۔ پٹی کھلی تو معلوم ہوا کہ دوسری آنکھ کی بینائی بھی چلی گئی ہے ۔ اب پہلی آنکھ کا زخم ملنے کے بعد دوسری آنکھ کا  بھی آپریشن ہو گا ۔

مصنف نے پھر ڈاکٹر صاحب کو پھر فون کیا لیکن وہ ندارد ۔ مصروفیات کے باعث خود تو نہ جا سکے مگر ایک بار فون ضرور کیا مگر بات اب کے بھی نہ بنی ۔

اب کے دو ہفتے  بعد  دوبارہ آیا تو مصنف نے اسے کھڑکی سے آتے ہوئے دیکھ لیا ہے مگر فیکے کا سامنا کرنے سے گریز کر رہے تھے ۔ مگر نوکر نے فیکے کو بتا دیا تھا کہ مصنف گھر پر ہیں اس پر وہ بہت ناراض ہوئے اب وہ اپنا موڈ بنا رہے تھے کہ کس طرح فیکے کو بتایا جائے کہ وہ اس کے لیے کچھ نہیں کر سکا۔

اور  خود سے سوال کرتے ہوئے مصنف ندامت سے یہ بات سوچ رہے تھے کہ چلو لاکھ دو لاکھ کی بات نہیں  دو آنکھوں کا سوال تھا اور میں جھوٹ  پہ جھوٹ  بولے جا رہا ہوں ۔ سوچا آج وہ فیکے کو سب کچھ سچ سچ بتا دے گا کہ وہ اس کے باپ کے لیے کچھ نہیں  کر سکا ۔

پھر ندامت کا سارا بوجھ اٹھا کر باہر آئے اور اس سے پہلے کہ کچھ کہ پاتے ۔ فیکا زاروزار رونے لگا : اور کہنے لگا : بابو جی سمجھ نہیں آتا کہ کس طرح آپ کا شکریہ ادا کروں ۔ آپ نے تو مجھے خرید لیا ہے کیونکہ اس کے باپ کی بینائی لوٹ آئی ہے یہ  خدا کے بعد  صرف بابو جی(مصنف)  کی مہربانی سے ہوا ہے۔

PDF DOWNLOADING

 

Leave a Comment