محنت پسند خردمند سبق کا خلاصہ

محنت پسند خردمند سبق مولانا محمد حسین آزاد کی مشہورِ زمانہ کتاب “نیرنگ ِ خیال “ سے لیا گیا ہے۔”جس میں تمثیل نگاری اور علامت نگاری کے ذریعے دنیا کے مختلف ملکوں اور مقامات کی سیر کروائی گئی ہے  ۔

سبق “محنت پسند خردمند” بارھویں جماعت  سرمایہ اردو( اردولازمی) کا  چوتھا سبق  ہے۔ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن پنجاب کے تمام بورڈزکے سالانہ امتحانات میں اس سبق کا خلاصہ اور تشریح کے لیے پیراگراف   وقتاً فوقتاً  آتا رہتا ہے ۔

 

  • خلاصہ کی تعریف:

سبق کے تمام پیراگراف میں موجود بنیادی نکات  کو مختصراً نثر میں بیان کرنا  خلاصہ کہلاتا  ہیں۔

خلاصہ لکھتے ہوئے مندرجہ ذیل نکات کا خیال رکھنا چاہیے۔

  1. سبق کا خلاصہ  2 سے 3 صفحات کے درمیان ہونا چاہیے
  2. سبق کے خلاصے میں تمام نکات  کی ترتیب اور تسلسل کو مدِ نظر رکھ کر خلاصہ لکھنا چاہیے۔
  3. سبق کے خلاصہ میں غیر ضروری وضاحت اور تنقید سے پرہیز کرنا چاہیے۔
  4. سبق کاخلاصہ 10 سے15 منٹ میں لکھنا ہوگا ۔
  5. سبق کا خلاصہ  10نمبر  کاہو گا( 1 نمبر مصنف کے نام کا ہوگا اور 9 نمبر  کا خلاصہ لکھنا ہو گا
  6. 2 اسباق کے نام ہوں گے اور آپ  کو ان دونوں میں سے کسی ایک کا خلاصہ لکھنا ہو  گے۔
  7. سال دوم کے پیپر میں چوتھا  سوال  سبق  کے خلاصےکے بارے میں پوچھا جائے گا۔

محنت پسند خردمند

مصنف : محمد حسین آزاد

خلاصہ

حضرت آدم کے وقت دنیا کی صورت

صاحبانِ علم بتاتے ہیں کہ جب فطری دنیا گناہ سے سے ناآشنا تھی اس ملک فراغ میں ایک رحم دل بادشاہ خسرو آرام کی حکومت تھی جو اپنی مہربانیوں کے عوض صرف یہ چاہتا تھا کہ اس کی رعایا باغوں کی سیر کرے ۔ آب حیات میں میں نہائے اور بے فکری میں جیے ۔ سویروں سے دن اور بہاروں سے موسم تھے ۔ قوائے جسمانی سردی اور گرمی سے بے نیاز تھے ٹھنڈے میٹھے  پانیوں کی نہریں قوت و  ذائقے  سے لبریز تھیں ۔ بھوک کی لطافت سے سے  ہر کھانا قوت بخش اور فرحت آمیز تھا معطر ہواؤں میں چرند پرند انسانوں کے گرد اٹھکیلیاں  کرتے  پھرتے تھے ۔ رعایا گھنے سایہ دار پیڑوں کے تلے زندگی گزار رہی تھی  ۔ ایک شخص کی خوشحالی سے  دوسرے   کی  خوشحالی  میں  فرق نہ آتا تھا  سب خوش و خرم اور بے فکر تھے ۔

انسانوں میں برائیوں کی ابتداء

    پھر ایک دن ایک میدان میں کچھ پھول کھلے  جن کی بو گرم اور تیز  تھی  ۔ ان کی بُو سے انسانوں  کے مجاز بدل گئے سب خود غرض ہو گئے ۔ فریب اور سینہ زوری کے شیطان بھی وہاں آ گئے پھر ان کی اولادیں وہاں لوٹ مار کرنے لگیں ۔ پھر تکبر اور حسد  آئے اور  اپنے ساتھ دولت کا معیار  لائے  آزادی کے دنوں میں میں تو بے احتیاجی ہی آسودگی تھی  لیکن اب آسودہ وہ تھا جس کا ہمسایہ محتاج ہوتا ۔  ہمسائے کی خوشحالی سے حسد کرتے  اور خود کو کو محتاج سمجھتے  ۔

احتیاج اور افلاس  بطورِ پیر زادے

اس جہالت میں احتیاج اور افلاس پیرزادوں کے بہروپ میں وہاں آئے دیکھتے ہی دیکھتے  سب ان کے مرید ہوگئے آئے ملک فراغ پر نحوست کے سائے چھا گئے ۔ موسم شدید ، زمین بنجر اور میوے قلیل ہوگئے ۔ خزاں کا راج ہوا کہ قحط سالی اور بیماریاں عام ہوگئیں ۔ قحط سالی کی نحوست ناقابلِ برداشت تھی  اس لئے سب بہت پچھتائے ۔ بالآخر سب تدبیر اور مشورہ نامی تارک الدنیا درویشوں کے پاس گئے ۔ وہ ان کی کی ناشکری پر برہم ہوا ۔ 

محنت پسندخردمند کا وجود

پھر انہیں محنت پسند خردمند  کے پاس جانے کی صلاح دی ۔ محنت پسندخردمند  احتیاج اور افلاس کی اولاد ضرور تھا اسی لیے امید کے دودھ کی لاج  ، ہنرمندی کی پرورش اور کمال کی شاگردی   کا رنگ اس کے لہو میں تھا ۔ سب اس کے حضور پہنچے وہ بادِ مخالف سے مقابلہ کرتے کرتے  ایک قوی ہیکل  جوان بن چکا تھا ان کی داستان غم سن کر قہقہے لگانے لگا ۔  وہ خسرو آرام کی کم ہمتی سے بھی نالاں تھا اور تن آسان رعایا کی جہالت پر بھی خفا ہوا ۔

خوشحالی کا آغاز

بالآخر  اس نے سب لوگوں کو ہمت اور تحمل کی سرداری میں دنیا کی تسخیر پر روانہ کیا ۔ انہوں نے مل کر کر پہاڑوں سے خزانے نکالے ، دریاؤں کا رخ موڑ کر کاشتکاری کی ، جنگلی جانوروں کا شکار کیا اور دھاتوں سے اوزار بنائے ۔تھوڑے  ہی عرصے میں نئے شہر ، قصبے اور دیہات آباد ہوئے ۔ زمینوں نے اناج کے ڈھیر اُگلے ۔ بلندو بالا عمارتیں اور پُر رونق بازار وجود میں آئے ــــــ خوشحالی کا دور دورہ ہوا محنت پسند خرد مند نےسلطان محنت پسند کا لقب پایا اور ایک عظیم سلطنت قائم کی ۔

وقت کی پابندی مضمون

محنت پسند خردمند کا خلاصہ
محنت پسند خردمند کا خلاصہ
بچپن ایک سنہری دور
بچپن ایک سنہری دور

Leave a Comment