مولانا ظفر علی خان کی نظم حمد کے اشعار کی تشریح
maulana zafar ali khan hamd tashreeh
پہنچتا ہے ہراک مے کش کے آگے دورِجام اس کا
کسی کو تشنہ لب رکھتا نہیں ہے لطف ِ عام اس کا
بنیادی فلسفہ:اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس اپنی ربوبیت سے ہر خاص و عام کو اپنی عنایات سے نوازتا ہے۔
تشریح: مولانا ظفر علی خان حمد کے مطلع میں خدا تعالی کی ذات ِ اقدس کی عظمت و کبریائی اور اس کی رحمت عام کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی شانِ ربوبیت ہے کہ وہ اپنی تمام عنایات ، کرم اور مہربانیوں سے کسی کو بھی محروم نہیں رکھتے ۔ مےکش تو شراب پینے والے کو کہتے ہیں لیکن شاعر نے یہ ترکیب مخلوقِ خدا کے لیے استعمال کی ہے اسی طرح دورِجام تو شراب کے پیالے کی گردش کو کہتے ہیں لیکن اس سے مراد مخلوقِ خدا پر اللہ تعالی کی عنایات اور مہربانیاں ہیں جو شب و روز جاری رہتی ہیں ۔ اس کی رحمتوں کا دورِ جام بلا تفریق اور بلا امتیاز ہر کسی کی تشنگی کو دور کرتا ہے اس کے لیے نہ رنگ و نسل کا امتیاز آڑے آتا ہے اور نہ ہی چھوٹے بڑوں کی تفریق رکھی جاتی ہے ۔ بقول شاعر
دیا اپنے کرم سے ریزہ مور ناتواں کو بھی
لگائے گر سلیماں کے لیے نعمت کے خواں تو نے
لطف عام کی بات کریں تو اللہ تعالی کی ذات ِ اقدس ایک طرف امیر کو دیتی ہے تو غریب کوبھی دیتی ہے ۔ اگر حاکم لطف اندوز ہوتا ہے تو محکوم بھی ؛ گورے بھی اور کالے بھی فیض یاب ہوتا ہیں ۔ اگر موسیٰ ؑ کو دیا تو فرعون کو بھی دیا ۔ اگر عیسیٰ ؑ کو دیا تو نمرود کو بھی دیا ۔ تو ہم کہہ سکتے ہیں اللہ تعالی کی ذاتِ اقدس اپنی رحمت اور عنایات میں ناصرف یکتا ہے بلکہ اس کا کوئی ثانی بھی نہیں ہے۔اسی بات کا تذکرہ سورۃ الاعراف کی آیت 156 میں کچھ اس طرح آیا ہے:
وَرَحْـمَتِىْ وَسِعَتْ كُلَّ شَىْءٍ
ترجمہ: “اور میری رحمت سب چیزوں سے وسیع ہے”
اَ لْحَـمْدُ لِلّـٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن
ترجمہ: “سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا پالنے والا ہے”
وہ غنی ہے کہ ہے محتاج زمانہ اس کا
کبھی خالی نہیں ہوتا ہے خزانہ اس کا
اس دنیا میں ہر پیاسا اللہ تعالیٰ سے قربت ، وابستگی اور تعلق سے اپنی پیاس کو بجھا سکتا ہے۔اس کی نعمتوں کی مساویانہ تقسیم سے فیض یاب ہو سکتا ہے۔جھونپڑوں سے محلات تک روشنی سے اجالا کرنا ہو یا حشرات الارض سے اشرف المخلوق کی سانسوں کی ڈور کو قائم رکھنا ہو ؛ خار زاروں سے لے کر گلزاروں تک آب و رنگ اور خوشبو بھی اس کی عنایات سے ہی ہیں۔قرآن ِمجید سورۃ الجمعہ کی آیت 10 میں ارشاد ربانی ہے:
وَاللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
ترجمہ : اور خدا سب سے بہتر رزق دینے والا ہے
اسی لیے مولانا ظفر علی خان کہتے ہیں کہ اس جہاں میں سب سے بڑا رازق اور رحیم ؛خدا کی ذات اقدس میں ہی ہے۔جو سب کو دیتا تھا دے رہا ہے اور دیتا رہے گا ۔
بقول داغ دہلوی
داغ کو کون دینے والا تھا
جو دیا اے خدا دیا تو نے
اور ہمیں بھی چاہیے کہ اللہ کے در کے سوا کہیں نہ جائیں اسی سے اپنی مشکلات کے حل کا سوال کریں۔بقول امیر مینائی ؔ
جو چاہیے سو مانگیے اللہ سے امیرؔ
اس در پہ آبرو نہیں جاتی سوال سے
شعر نمبر 2
گواہی دے رہی ہے اس کی یکتائی پہ ذات اس کی
دوئی کے نقش سب چھوٹے ، ہے سچا ایک نام اس کا
بنیادی فلسفہ: اللہ تعالیٰ کی ذات ِ اقدس ہی اس کے یکتا ،بے مثل، منفرد اور وحدہ’ لا شریک ہونے کی گواہی دے رہی ہے۔
تشریح : واحدانیت کا تصور اردو کے تقریبا ً تمام شعرا کے ہاں ملتا ہے ۔ وحدانیت کے تصور کے متعلق دو نظریات ہیں ۔
1: فلسفہ ؤحدت الوجود 2:فلسفہ وحدت الشہود ۔
بقول خواجہ میر دردؔ
جگ میں آکر اِدھر اُدھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
مولانا ظفر علی خان بھی وحدانیت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس ہی اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ وہ یکتا اور یگانہ ہے ۔ کیونکہ اگر دو ہونے کا کوئی نقش بھی ہوتا تو ہم مان لیتے کہ کوئی اور ذات بھی ہے جو نظام ہستی چلا رہی ہے۔دنیا کے نظام میں لیل و نہار کی گردش ہو یا ماہتاب و آفتاب کو روشن کرنے والی ذات ؛ بارشوں کا برسنا ہو یا ہواؤں کا چلنا ؛ گلزاروں کا مہکنا اور موسموں کی تبدیلی میں تسلسل ہی اس کے ہونے کی گواہی دیتے ہیں ۔ ازل سے ابد تک اس نظام ِ کائنات کو چلانے کے لیے اللہ کی ذات ِ اقدس کا کوئی بھی شریک نہیں ہے۔بقول مظفر وارثی:
کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے ، وہی خدا ہے
دکھائی بھی جو نہ دے ، نظر بھی جو آرہا ہے وہی خدا ہے
تلاش اُس کو نہ کر بتوں میں ، وہ ہے بدلتی ہوئی رُتوں میں
جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رہا ہے ، وہی خدا ہے
اگر ایک سے زیادہ خُدا ہوتے، تو کائنات ایک سے زیادہ تخلیق کاروں، اور اختیارات کی وجہ سے ابتری کا شکار ہوتی۔ لیکن یہ ابتری کا شکار نہیں ہے، اس لیے، صرف ایک خُدا ہے۔تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ نظام کائنات فقط ایک ہی قوت کے ہاتھوں میں ہے۔خدائی کا دعویٰ کرنے والے نمرود اور فرعون کا انجام اس بات کی گواہی اور اس کے نام کی سچائی کی گواہی ہے۔اس لیے اللہ کے مقا بلے میں دوئی کا گمان بھی کفر ہے۔ہزار پردوں میں ہوتے ہوئے بھی بے پردہ ہے۔ہزاروں نشانیوں کے باجود بے نشاں ہے ۔بقول امیر مینائی:
لاکھ پردوں میں ہے تو بے پردہ
سو نشانوں پہ،بے نشاں تو ہے
تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا
برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا
ترے سوا کوئی دعویٰ کرے خدائی کا
میں ماننا تو کجا اس کو جانتا بھی نہیں
عقیدہ توحید ہی وہ محور ہے جس کے ارد گرد ایمان ، اسلام ، اخلاق کے تمام تقاضے گردش کرتے ہیں ۔ ایمان و اسلام کی بنیاد توحید پر ہی ہے اس بنیاد میں اگر فرق آ گیا اور یہ عقیدہ اللہ نہ کرے مجروح ہوگیا تو پھر ایمان و اسلام ، عبادات وتقوی سب کے سب عند اللہ نا معتبر قرار پاتے ہیں ۔ توحید ہی تمام انبیاء کی دعوت و تبلیغ کا نقطہ آغاز تھا ، نقطہ وسط بھی اور نقطہ اختتام بھی۔ دین میں توحید کی اسی اہمیت اور مقام ومرتبہ کی وجہ سے اللہ نے ایک مکمل سورہ ، سورہ اخلاص کے نام سے نازل فرمائی جس میں توحید خالص سے بحث کی گئی ہے ۔
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اللَّهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ
ترجمہ :”کہو کہ وہ (ذات پاک جس کا نام) الله (ہے) ایک ہےمعبود برحق جو بےنیاز ہےنہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹااور کوئی اس کا ہمسر نہیں”
شعر نمبر3
ہر ایک ذرہّ فضا کا داستاں اس کی سناتا ہے
ہر ایک جھونکا ہوا کا آکے دیتا ہے پیام اس کا
بنیادی فلسفہ:کائنات کا ایک ایک ذرہ اور ہوا کا ہر ایک جھونکا اس کے وجود کا مل کا پیغام دیتا ہے۔
تشریح: شاعرکہتا ہے اللہ تعالیٰ کی نشانیاں اور کائنات میں اس کی قدرت کے انبار ہمیں اس کی وحدانیت پر ایمان لانے کا وارث بناتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی کتاب میں اس کی ترغیب دی ہے ۔ اس نے ہمیں آسمان و زمین اور پہاڑوں کی تخلیق میں اور دیگر نشانیوں میں غور کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ بندے کو یہ معلوم ہو جاۓ کہ اس کائنات کا ایک خالق و مدبر ہے اور وہی ان کی ساری عبادتوں کا مستحق ہے ۔ یہ نیلگوں آسمان ، یہ وسیع وعریض دھرتی ، یہ چمکتا سورج ، یہ چاندنی میں نہایا ہوا چاند ، یہ فضائے بسیط میں ٹمٹما کر اپنے وجود کا احساس دلانے والے ستارے ، خلا میں تیرنے والی یہ کہکشائیں ، ہواؤں کے دوش پراُڑان بھرنے والے یہ بادل اور گھٹائیں ، یہ اونچے اونچے پربت ، یہ بے کراں سمندر ، یہ اپنی دھن میں مگن بہتی چلی جانے والی ندیاں ، یہ چمن زار اور یہ بیاباں ، یہ چمن کے پھول ،غرض کہ زمین سے آسمان تک ، پورب سے پچھم تک اور اتر سے دکھن تک جتنی بھی مخلوقات ہیں اور جتنے بھی ذرات ہیں، سب اسی رب وحدہٗ لاشریک کی تخلیق اور اسی کی نشانیاں ہیں جو سارے جہان کا پالنہار ہے ۔ جس کی محتاج دنیا اور ہرشے اس دنیا کی ہے لیکن وہ کسی کا محتاج نہیں ۔ دنیا کی ہر شے جس کی نیاز مند ہے لیکن وہ کسی کا نیاز مند نہیں ، وہ بےنیاز ہے اور جس کی ہمسری کوئی کرنہیں سکتا ، جو بے مثل ہے ، بے عیب ہے اور ہر طرح کی تعریف اسے ہی لائق و زیبا ہے ۔ دنیا کی ہر شے اس بات پر دلالت کرتی ہےکہ وہی تنہا معبود بر حق ہے اور صرف وہی عبادت کیے جانے کا حق رکھتا ہے، اس کے سوا کوئی نہیں جو کسی بھی طرح کی عبادت کا مستحق ہو۔
علامہ محمد اقبال اپنی نظم “رُوحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے ” حضرت آدم کو دعوت نظارہ دیتے ہوئے کہتے ہیں ۔
کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سُورج کو ذرا دیکھ
اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھُپا دیکھ
دنیا میں جتنی بھی مخلوقات ہیں چاہے وہ زمینی ہوں یا آسمانی ، بحری ہوں یا بری ، فضائی ہوں یا خلائی ، اونچے اونچے محلوں میں رہتی ہوں یا پھر تنگ وتاریک آشیانوں میں یا گھونسلوں میں ، ساری مخلوقات کی تخلیق کا مقصد صرف ایک ہے اور وہ ہے رب کائنات کی عبادت و بندگی اور تسبیح وتہلیل اور تحمید و تقدیس کرنا ۔ اور یہ سچ ہے کہ کائنات کی جاندار اور بےجان تمام چیزیں اور مخلوقات رات دن رب کائنات کی تسبیح وتہلیل میں مگن اور مشغول رہتی ہیں یہ اور بات ہے کہ ہم اور آپ سمجھیں یا نہ سمجھیں اس بات کی گواہی اسی ذات بے عیب نے دی ہے جس نے ان تمام مخلوقات کو پیدا کیا ہے۔اس شعر میں صرف دو علامتی چیزوں کا اظہار کیا ہے ایک ذرہً جو نظروں میں سب سے چھوٹا ہے اور دوسرا ہوا جو وجود باری تعالیٰ کی طرح ہر جگہ موجود ہے۔بقول الطاف حسین حالیؔ
آفاق میں پھیلے گی کب تک نہ مہک تیری
گھر گھر لیے پھرتی ہے پیغام صبا تیرا
شعر نمبر4
سراپا مَعصِیَت میں ہوں ، سراپا مغفرت وہ ہے
خطا کوشی روش میری ، خطا پوشی ہے کام اس کا
بنیادی فلسفہ: میں گناہ گار اور غلطی کا پتلا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی ذات ِ اقدس غفور رحیم اور ستارالعیوب ہے
تشریح : انسان خطا کا پُتلا ہے ۔ اس دنیا میں کوئی ایسا نہیں ہے جو یہ دعویٰ کرے کہ مجھ سے کبھی غلطی نہ ہوئی ہو ۔ بڑی بڑی برگزیدہ ہستیوں سے بھی غلطی کا ارتکاب ہوا تو پھر عام انسان کیسے محفوظ ره سکتے ہیں ۔ لیکن اگر ہم تاریخ کے اوراق کا جائزہ لیں تو ہر وہ ہستی جس سےبھی کوئی غلطی یا کوئی گناہ سر زرد ہوا اور اس نے اپنی غلطی کو محسوس کر کے “معافی وندامت ” کا راستہ اپنایا تو اس کی قدرومنزلت میں اضافہ ہوا ۔ ہمارے جدِ امجد حضرت آدم علیہ السلام و اماں حوا علیہ السلام کی مثال ہمارے سامنے بالکل واضح ہے کہ جب ان دونوں نے شیطان کے بہکاوے میں آ کر نادانی سے شجرِ ممنوعہ کا پھل کھا کر اللہ کے حکم کے برخلاف کیا تو پھر اس پر ڈٹے نہیں رہے بلکہ نادم ہو کر اللہ کے حضور اپنی خطا کی معافی اس طرح مانگی۔
’’اےہمارے پروردگار ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اگر آپ معاف نہیں فرمائیں گے اور ہم پر رحم نہیں فرمائیں گے تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔‘‘
اللہ رب العزت نے ان کو معاف فرما دیا اور خصوصی انعامات سے نوازا لیکن دوسری طرف ابلیس نے اپنی غلطی و نافرمانی پر نادم ہونے کے بجائے تکبر ، سرکشی و بغاوت کا کردار ادا کیا تو اللہ نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کو لعین قرار دے دیا۔اسی لیے ہر وقت ہمیں کیفیت ِ معافی میں ہونا چاہیے۔
عصیاں سے کبھی ہم نے کنارا نہ کیا
پر تو نے دل آزُردہ ہمارا نہ کیا
ہم نے تو جہنم کی بہت کی تدبیر
لیکن تیری رحمت نے گوارا نہ کیا
دنیا کا ہر انسان غلطی کرتا ہے ۔ چاہے جتنا مرضی ذہین ، سمجھدار اور زیرک انسان ہی کیوں نہ ہو اور یہ بھی سچ ہے کہ “انسان خطا کا پُتلا ہے” لیکن کسی بھی گناہ اور غلطی پر پچھتانے اور اُسے سدھارنے کا ایک مقرر وقت ہوتا ہے ۔ جب مقرر وقت ہاتھ سے نکل جائے تو پھر ایک دوسری کہاوت جنم لیتی ہے کہ، “اب کیا پچھتاوے ہوت ، جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت” لیکن ایسی صورت ِ حال میں اللہ تعالی کی رحمت جوش میں آتی ہے اور انسان کو معاف کر دیتی ہے۔
خطائیں دیکھ کر بھی عطائیں کم نہیں کرتا
میں اکثر سوچتا ہوں کہ میرا رب کتنا مہربان ہےقرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد ربانی ہے :پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات حاصل کیے پھر اس کی توبہ قبول فرمائی، بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے
گناہوں پہ پشیماں ہونا مومن کی صفت ہے اور مایوس ہونا کافروں کی کی صفت ہے ۔ شاعر بھی اپنے گناہوں پہ شرمندہ ہے مگر اس ذات رحیم پر اس کو مکمل بھروسہ ہے کہ وہ اس کی مغفرت کر دے گی ۔ اللہ تعالی کی ذات ِ اقدس کی ایک صفت ستاری بھی ہے ۔ اگر شاعر نے ساری زندگی گناہ کرنا اپنا شعار بنایا تو ربِ کریم نے ہمیشہ اس کو معاف کیا ۔ بقول اقبال
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں
شعر نمبر5
مری افتادگی بھی میرے حق میں اس کی رحمت تھی
کہ گرتے گرتے بھی میں نے لیا دامن ہے تھام اُس کا
بنیادی فلسفہ: شاعرنے گرتے گرتے اللہ تعالیٰ کے دامن کو تھام کر اس کی رحمت کا حصول ممکن بنایا۔
تشریح : شاعر اپنی بے بسی ، عاجزی اور مجبوری کو اپنے لیے اللہ کی رحمت گردانتے ہیں کیونکہ انسان خطا کار ہے اور اس کی فطرت میں غلطی کرنا ہے ۔ زندگی میں انسان بے شمار خطائیں کرتا ہے تو اس کو روزِ ِ حساب سے ڈر لگتا ہے ۔ اسی ڈر کی وجہ سے ہمیشہ وہ رحمت الٰہی کے متمنی ہوتے ہیں ۔ اسی لیے گناہوں کے بعد انسان اپنی شرمندگی اور ندامت کا اظہار کرتا ہے تو اللہ تعالٰی کی رحمت اس کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔
ہم نے تو جہنم کی بہت کی تدبیر
لیکن تری رحمت نے گوارا نہ کیا
مصیبت ، دکھ ، درد ، پریشانی ، بیماریوں کی تکالیف اور مفلسی و تنگ دستی کی شدت میں رحمت خدا وندی کا دامن تھامنا اور اللہ رب العزت کے فضل وکرم سے امید رکھنا ہی ایک انسان کا شیوہ ہونا چاہیے۔خداکی رحمت سے مایوس ہونا مومنوں کا نہیں کافروں کا شیوہ ہے۔اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشا د فرما یا:
’’اور ضرور ہم تمھیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے
اور خوشخبری سناؤ ان صبر والوں کو کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ہم اللہ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھر نا‘‘۔ (سورہ بقرہ )
اس بھروسے پہ کر رہا ہوں گناہ
بخش دینا تو تیری فطرت ہے
انسان اپنی خواہشات کی تکمیل پر خود کو جب قادر سمجھتا ہے تو یہی کیفیت اس سے گناہ کرواتی ہے اور دوسری طرف جب وہ کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو اس سے بچنے کی کوئی کوشش بھی کارگر نہیں ہوتی تو ایسی صورت میں اس کو خدا کی رحمت یاد آتی ہے ۔ایسی صورت میں انسان اپنی عاجزی کا اظہار اللہ تعالٰی کے حضور پیش کرتے ہیں تاکہ اس کی رحمت کو طلب کیا جا سکے ۔ ذاتِ باری تعالٰی کی رحمت کی وسعت کائنات سے بھی بڑھ کر ہے ۔ انسان اپنی بے بسی میں نہایت عاجزی سےجب اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہےتو رحمت ِ خداوندی اس کو معاف کر دیتی ہے۔
تیری بخشش کے بھروسے پہ خطائیں کی ہیں
تیری رحمت کے سہارے نے گنہ گار کیا
رحمتوں سے نباہ میں گزری
عمر ساری گناہ میں گزری
شعر نمبر6
ہوئی ختم اُس کی حُجت اِس زمیں کے بسنے والوں پر
کہ پہنچایا ہے ان سب تک محمد ؐ نے کلام اس کا
بنیادی فلسفہ: نبی کریم ؐ نے اللہ تعالیٰ کا کلام اس دنیا کے بسنے والوں تک پہنچا کر اس کی ربوبیت کا ثبوت “قرآن مجید “کی صورت میں مکمل کر دیا۔
تشریح : حمد کے اس شعر میں نعتیہ پہلو حاوی ہے ۔ اللہ تعالٰی نے نبی کریم ﷺ کو اپنا آخری نبی بنا کر اپنے دلائل اور ثبوت مکمل کر دیے ۔ جب کفار نے نبی کریم ؐ سے دلیل مانگی تو نبی کریم ﷺ نے یہ الفاظ کہے “انا برہان” یعنی میں ہی دلیل ہوں ۔ دین اسلام میں قران ِمجید ضابطہ حیات ہے اور جس قوم کے لیے اس کو حجت بنایا گیا وہ قوم سب سے افضل ہے اس شعر میں ختم نبوت کا بھی تذکرہ ہے۔کہ آپ ؐ اللہ کے آخری نبی ہیں۔یہی بات اللہ نے اس آیت میں بھی بیان کی ہے:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا۔
ترجمہ :” آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیاہے اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین چن لیا ہے “
اﷲ تعالیٰ نے اپنے نائب آدم ؑ سے جو ہدایت فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا اس کو پورا کرنے کے لیے ارسال کتب اور نبوت و رسالت کا ایک طویل سلسلہ شروع کیا ، جن میں تمام بنی نوع انسان کے لیے زندگی کی پُر پیچ راہوں اور کٹھن وادیوں سے آسانی سے گزر جانے کی تعلیم و تربیت دی گئی اور یہ سلسلہ خاتم النبیین و ختم المرسلین نبی رحمت ﷺ پر ختم ہوا ۔ دین اسلام سراسر ہدایت ہے چنانچہ نعمتیں تمام کر دینے کا صاف مطلب یہ ہے کہ انسان کو تمدنی ، ثقافتی ، مادی اور روحانی زندگی کے ہر شعبے میں قدرت کی وہ ہدایت عطا کر دی گئی جس کا اس سے وعدہ کیا گیا تھا ۔ اب بھی اگر کوئی اس ہدایت کو اپنی زندگی کا مرکز و محور نہ بنائے اور محض اپنی عقل و فہم اور اپنے خود ساختہ نظریات کو ہی اﷲ کی ہدایت پر برتری د ے، تو ا س کا یہ طرز عمل عذابِ الہی کو آواز دینے کے مترادف ہے۔ہدایت اور کتاب روشن کا معجزہ نبی کریم ﷺ لے کر آئے۔
ہدایت کے لیے دنیا میں ختم المرسلین آئے
کتاب رشد لے کر رحمت اللعالمین آئے
خالق کائنات نے یہ زمین بنائی اس میں انسان کو اتارا اور وقتاً فوقتاً انسان کی ہدایت کے لیے انبیا کو معبوث فرمایا ۔ لیکن ہمیشہ انسان سرکش ہی رہا ہے اور کفر وشرک کو اپنا معمول بنائے رکھا ۔ آخر کار اللہ تعالٰی نے نبی آخر الزمان کو ہدایت کے لیے بھیجا ۔ آپ نے 23 سال تک تبلیغ دی اور خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر سورہ مائدہ کو نازل کیا ۔آپ ؐ نے تکمیل اور حجت کے تمام ہونے کا اعلان فرمایا۔
ہوئی تکمیل جن کی ذات پر خیرو برکت کی
انھیں خیرالبشر خیر الورا کہیے بجا کہیے
شعر نمبر 7
بجھاتے ہی رہے پھونکوں سے کافر اس کو رہ رہ کر
مگر نور اپنی ساعت پر ، رہا ہو کر تمام اس کا
بنیادی فلسفہ: کفار کی ہزار ہا کوششوں کے باجود اسلام کا نور طلوع ہو کر رہا۔
تشریح : مولانا ظفر علی خان نے اسلام اور نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کو نور سے تشبیہ دی ہے ۔ جو ہزار ہا دشمنوں کے ہوتے ہوئے بھی طلوع ہو کر رہا ۔ لفظ “رہ رہ کر” میں ہی اصل موضوع چھپا ہوا ہے کیونکہ بار بار حق کو شکست دینے کی کوشش کی گئی ہے اور انسانی فطرت بھی یہ ہے کہ جن نظریات اور خیالات کے ساتھ وہ پیدا ہوتا ہے ان نظریات میں جمود پیدا ہو جاتا ہے ۔ اس جمود کو ختم کرنے کے لیے ایک ایسی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے جو شیطانی طاقتوں کو شکست دے اور انقلاب کی راہ ہموار کرے ۔ وہ طاقت اللہ تعالی کی ذاتِ اقدس میں ہی ہے اور یہی صورتحال عرب معاشرے میں تھی کہ عرب مظاہر ِفطرت ہوا ، آگ ، پانی اور بتوں کی پوجا کرتے تھے ۔ وہ اپنی سوچ کے حصار سے نکل نہیں سکتے تھے ۔ ایسی صورتحال میں نبی کریم ﷺ منصب ِخلافت پر فائز ہوئے تو اہل عرب نے شمع رسالت کو بجھانے کے لیے ہزار ہا کوششیں کیں لیکن آپ تو “سراج المنیر” (چمکتا ہوا چراغ) تھے ۔ آپ ؐ کو راہ حق سے دستبردار کرنے کے لیے کبھی لالچ ،کبھی ڈرایا اور دھمکایا گیا ۔لیکن آپؐ وہ نور تھے جو بڑھتا ہی چلا گیا اور عرب کی سر زمین کو روشن کرنے کے بعد پوری دنیا میں روشنی کا باعث بن گیا ۔ کافروں کے ارادے دھرے کے دھرے رہ گئے کیونکہ یہ نور غاروں سے درباروں تک کو روشن کر تا چلا گیا۔مولانا ظفر علی خاں:
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
خدائی کا دعوٰی کرنے والے اس دنیا میں بہت آئے لیکن ان کا انجام سب کے سامنے ہے ۔ جب نمرود نے خدائی کا دعویٰ کیا تو اس کو ایک مچھر کے ہاتھوں ذلیل وخوار کروا دیا گیا ۔ فرعون کو جب خدائی کا خمار چڑھا تو اس کو غرق کر دیا گیا۔ اور دوسری طرف نبی کریم ؐ کے لیے ابوجہل آزمائش بنے تو وہ بھی اپنے انجام کو پہنچے۔
خدا جس کی حفاظت کی حیا جب ٹھان لیتا ہے
تو پھر مکڑی کے جالوں کی وہ چادر تان دیتا ہےاگر وہ زندگی لکھ دے سمندر راہ دے دیگا
اگر !وہ موت لکھ دے تو مچھر جان لیتا ہے
رحمتہ للعالمینﷺ کے لوگ کیوں دشمن تھے ؟ صرف اس لیے کہ وہ حق کی آواز کو بلند کرنے اور انسانیت کو فروغ دینے کے لیے دعوت کا کام کر رہے تھے جو بت پرستوں کو منظور نہیں تھا ۔ وہ تو اپنے الگ الگ خدا کی پوجا میں مست تھے اور ایک خدا سے ان کو بیر تھا۔ اسلام دشمن محمد عربیﷺ کی جان کے ایسے دشمن تھے کہ کب کیا ہو جائے معلوم نہیں تھا ۔ اللہ سے وعدے کے مطابق رسول اممؐ اپنا کام کرتے رہے ، جس کے لیے اللہ نے ان کو دنیا میں بھیجا تھا ۔ خدا نے خود میرے نبیؐ کی حفاظت کا وعدہ کیا تھا تو پھر کس میں ہمت تھی کہ کچھ نقصان کر سکتا ، ہاں تکلیفیں اٹھانی تھیں جو اٹھائیں ۔ کس کے لیے ؟ ہمارے لئے ۔ رب العالمین نے فرمایا کہ اے نبیؐ اگر آپ کہیں تو ان پہاڑوں کو آپ کے لیے سونے کا کر دیا جائے ؟ میرے آقا نے منع کر دیا ۔ طائف میں زمین و آسمان آنسو بہا رہے تھے کہ خدا کے محبوب پر اس قدر ظلم و ستم ۔ فرشتوں نے کہا کہ اگر آپؐ فرمائیں تو دو پہاڑوں کو آپس میں ملا کر ان ظالموں کو ختم کر دیا جائے تو بھی میرے آقاؐ نے منع فرما دیا کیوں کہ آپ ﷺ کو یقین کامل تھا۔:
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
مولانا ظفر علی خان کی نظم حمد کا خلاصہ
1 thought on “مولانا ظفر علی خان کی نظم حمد کے اشعار کی تشریح ”