میر انیس کی نظم میدان کربلا میں صبح کا منظر کا خلاصہ : میر انیس کی نظم میدان کربلا میں صبح کا منظر کا خلاصہ بہت اہم ہے ۔نظم “میدان کربلا میں صبح کا منظر” گیارھویں جماعت سرمایہ اردو ( اردو لازمی ) کی چوتھی نظم ہے ۔ جس کے شاعر میر انیس ہیں ۔
بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن پنجاب کے تمام بورڈز کے سالانہ امتحانات میں وقتاً فوقتاً نظم“میدان کربلا میں صبح کا منظر” کا خلاصہ آتا ہے ۔
شاعر: میر انیس
میدانِ کربلا میں صبح کا منظر
خلاصہ
میدان کربلا میں صبح عاشور کی ٹھنڈی ہوا میں سبزے کی لہلہاہٹ کے سامنے آسمان کی رنگت پھیکی پڑ گئی تھی ۔ جھومتے ہوئے درختوں کے پتے ہیروں سے کسی طرح کمتر نہ تھے ۔ پھولوں کی پنکھڑیوں پہ جمے اوس کے قطرے مو تیوں پہ سبقت لے گئے تھے ۔ گلشنِ زُہرا ؓ کے خوش الحان پرندے محوِ حمد و ثنا تھے ۔ سر سبز پیڑوں کے تھانوے سبدِ ُگل فروش تھے ۔ ہزاروں محبوب پھولوں کے جھرمٹ میں ، بلبل ِ تنہا کی فریاد سماعتوں کے لیے شیرینی تھی ۔ اسی میدانِ کرب وبلا میں بنت ِ رسول ﷺ کے پھول حضرت امام حسینؓ اور ان کے جان نثار ساتھیوں پر پانی کی بندش تھی تو گلاب کے پھول اوس کے کٹورے بھرے شاہ کے اذن کے انتظار میں کھڑے تھے ۔ ہر شے امام کی تقلید میں اپنے اپنے فطری انداز میں اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کر رہی تھی ۔ چیونٹی سی نحیف و ناتواں مخلوق ہو یا ہرے بھرے سبزہ زاروں کے چوکڑیاں بھرتے ہرن سب مالک کے حضور سجدہ ہائے شکر بجا لاتے تھے ۔ شیر بھی اپنی کچھاروں میں پروردگار کی حمد کرتے ہوئے دھاڑ رہے تھے۔