“خدائے سخن” میر تقی میرؔ کی شاعری وقت اور مقام کی قید سے آزاد ہے ۔ داخلی کیفیات اور خارجی عوامل نے ان کی شاعری کے موضوعات کو عالمگیر بنا دیا ہے ۔زیرِ تشریح غزل پنجاب بھر کے سیکنڈری ایجوکیشن بورڈز کے سلیبس میں شامل میر تقی میر کی دوسری غزل ہے۔
میرتقی میر
گل کو ہوتا صبا !قرار اے کاش!
رہتی اک آدھ دن ،بہار اے کاش!
بنیادی فلسفہ: دنیا کی بے ثباتی ، ناپائیداری اور فنا پذیری موضوع سخن ہے ۔
تشریح : “خدائے سخن” میر تقی میرؔ ایک عالمگیر حقیقت کی طرف علامتی اشارہ کر رہے ہیں کہ دنیا کی ہر شے کو فنا ہے ۔ جو آیا ہے اس کو جانا بھی ہے ۔آغاز ہے تو انجام بھی ہے اسی کا نام تغیر ہے ۔ شاعر حسرت اور یاس کی تصویر بنے صبا سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ کاش ! ایسا ہو جائے کہ گلوں کو دوام مل جائے اور ہمیشہ بہار کا موسم رہے ۔ بہار کا موسم شاعروں کا پسندیدہ موسم اور پسندیدہ استعارہ رہا ہے جو کہ اچھے دنوں کی علامت بن کر آتا ہے۔بہار میں شاعر کومحبوب کی قربت کے لمحات یاد آتے ہیں تو اس کی زبان سے نکلتا ہے ۔ بقول شاعر
تری قربت کے لمحے پھول جیسے
مگر پھولوں کی عمریں مختصر ہیں
انسانی زندگی میں مسرتوں کا دور بہار کے موسم کی طرح نہا یت مختصر ہوتا ہے ۔ یہ شعر اصل میں میر تقی میرؔ کی ذاتی زندگی کا عکاس ہے۔میرؔ نے دنیا اور اپنوں کے ہاتھوں جو دکھ اٹھائے ان سے ان کی کی زندگی میں مایوسی پیدا ہوئی ۔ لیکن لگتا ہے کہ عمر بھر دکھ اٹھانے کے بعد جب میرؔ کی زندگی میں اچھے دن آئے تو وہ بھی مختصر مدت کو آئے پھر وہی دکھ اور پریشانیوں نے زندگی کو گھیر لیا۔ بقول میرؔ
کہا میں نے گل کا ہے کتنا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
غزل میں “اے کاش” کی ردیف پُر اثر ہے اس میں میر تقی میرؔ اپنی ان تمام ناکام اور ناتمام حسرتوں کا اظہار کر رہے ہیں جن کو وہ دبائے اس جہان سے گزر گئے۔بقول سیماب اکبر آبادی
عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
بے ثباتی زمانے کی ناچار
کرنی مجھ کو بیان پڑتی ہے
شعر نمبر 2
یہ جو دو آنکھیں ، مند گئیں میری
اس پہ وا ہوتیں ، ایک بار اے کاش!
بنیادی فلسفہ: کاش ! میری آنکھیں مرنے اور بند ہونے سے پہلے محبوب کا دیدار کر سکتیں ۔
تشریح : “شہنشاہِ غزل ” میر تقی میرؔ نے منفرد پیرائے میں دیدار محبوب کی آرزو کی ہے ۔شاعر کا محبوب اس کی خواہشات ، تمناؤں اور زندگی کامحور ہوتا ہے اسی لیے اس کی تشنگی اور اضطراب محبوب کے دیدار سے ختم ہو جاتا ہے ۔ کلاسیکل اردو روایتی شاعری میں محبوب کا تصور ایک کج روا ، بے اعتناد اور ستم گر کے روپ میں آتا ہے ۔ جو عاشق کی لاکھ کوششوں کے باوجود وفا کا قائل نہیں ہوتا لیکن دوسری طرف عاشق کی ایک ہی خواہش ہے کہ اس کی آنکھ ایک مرتبہ کھلے جائے تاکہ وہ اپنے محبوب کا دیدار کر سکے۔
یہ محرومی نہیں پاسِ وفا ہے
کوئی ترے سوا دیکھا نہ جائے
اگر اس شعر کو عشق ِ حقیقی کے تناظر میں دیکھا جائے تو عاشقِ صادق کی یہ دلی آرزو ہوتی ہے کہ موت سے پہلے کم ازکم ایک بار تو محبوب کا دیدار اور وصال نصیب ہو جائےتاکہ اس کی دیرینہ خواہش پوری ہو جائےجس کے لیے اس نے اپنی ساری زندگی گزار دی۔بقول بابا فرید
کاگا سب تن کھائیو
چُن چُن کھائیو ماس
دو نیناں مت کھائیو
اِنھیں پیا ملن کی آس
اس شعر میں آنکھیں مندنا اور آنکھیں وا ہونا میں صنعتِ تضاد ہے ۔ میر ؔ کا یہ شعر حسرتِ دید کی ایک موثر تصویر ہے کہ وصال تو خواب ہی رہا ، دید بھی نہ ہو سکی۔شعر میں “اے کاش ” کی ردیف شاعر کی ان تمام نا مکمل حسرتوں کا اظہار ہے ۔مومن خان مومن ؔنےبھی اسی خیال کو اس طرح باندھا ہے۔
وہ آئے ہیں پشیماں لاش پر اب
تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے
اور
جناب کے رخ روشن کی دید ہو جاتی
تو ہم سیاہ نصیبوں کی عید ہو جاتی
شعر نمبر3
کن نے اپنی مصیبتیں نہ گنیں
رکھتے میرے بھی غم ،شماراے کاش!
بنیادی فلسفہ: ۔کاش ! میرے دوست اپنے غموں کے تذکرے کے ساتھ ساتھ میرے غموں کابھی شمار کرتے۔
تشریح : “خدائے سخن ” میر تقی میرؔ کو شاعر غم بھی کہا جاتا ہے۔اس کی وجہ ان کی زندگی میں غم زیادہ اور خوشیاں کم تھیں ساری زندگی دکھوں کو برداشت کرتے گزر گئی ۔کبھی گھر بار اجڑنے کا غم ، کبھی تلاش روزگار کا غم دلی کی بار بار تباہی کا دکھ اور عشق میں ناکامی کا دکھ جس نے میؔر کو شاعر غم بنا دیا اور حسرت و یاس ،سوزوگداز ، غم اور آہ وزاری ان کی شاعری کا شعار ٹھہرا ۔ اسی کا تذکرہ وہ اس طرح کرتے ہیں۔
مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
دوسرا پہلو معاشرتی حوالے سے دیکھا جائے تو خوشی اور غم انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہے۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر کسی کو اپنا غم ہی دنیا کا سب سے بڑا غم لگتا ہے۔میرؔ کہتے ہیں جو شخص بھی مجھے ملتا ہے اپنا غم بیان کرنا شروع کر دیتا ہے۔اپنی پریشانیوں کی سر گزشت تو سناتا ہے لیکن میری حالتِ زار سننے کے لیے کوئی تیار نہیں ۔میرے غموں کو تو شمار کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔
اپنے قصے ہی سنانے آئے
دوست بھی غم بڑھانے آئے
انسانی فطرت کا اشرف المخلوق ہونے کے ناطے یہ حق بنتا ہے کہ وہ دوسروں کے غموں کو بھی شمار میں رکھے ۔اور ان کا مداوا کرنے کی کوشش کرے۔ میرؔ نے بھی اپنی شاعری میں غمواندوہ کا اظہار کیا ہے لیکن بات بڑی سلیقہ مندی سے کی ہے۔غم کی ایسی ہی تصویر ایک اور شاعر نے کھنچی ہے۔
آمجھے دیکھ ، جسے دیکھ کے دنیا کہ دے
ہم نے پھرتا ہوا ، بازار میں غم دیکھا ہے
وہ جو گیت تم نے سنا نہیں میری عمر بھر کا ریاض تھا
میرے درد کی تھی داستاں جسے تم ہنسی میں اڑا گئے
شعر نمبر4
جان آخر تو جانے والی تھی
اس پہ کی ہوتی ، میں نثار اے کاش!
بنیادی فلسفہ: کاش ! میں اپنی جان مرنے سے پہلے اپنے محبوب پر قربان کر دیتا ۔
تشریح : “خدائے سخن ” میر تقی میرؔ کا یہ شعر ایک آفاقی موضوع کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے اس دنیا میں موت سے کسی کو بھی رستگاری حاصل نہیں ہے ۔
ﻛُﻞُّ ﻧَﻔْﺲٍ ﺫَﺁﺋِﻘَﺔُ ﺍﻟْﻤَﻮْﺕِ۔
” ہر جان موت کا ذائقہ چکھنے والی ہے۔ ” سورۃ آل عمران
بہتر ہے موت آنے سے پہلے پہلے اپنی زندگی کو اپنے محبوب پر قربان کر دینا چاہیے لیکن افسوس صد افسوس ! کہ شاعر اپنی زندگی اپنے محبوب پر قربان نہ کرسکا ۔جس کی وجہ سے بے چینی بڑھ گئی ہے ۔اردو شاعری میں تو بے وجہ ہی شاعر اپنی زندگی کو محبوب پر قربان کر دیتا ہے ۔
جان تم پرنثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دعا کیا ہے
زیرِ بحث شعر کے پہلے مصرعے میں شاعر موت کو برحق سمجھتا ہے اور یہ شعر عشق حقیقی کا ہے کیونکہ اس دنیا میں جتنے بھی سچے عاشق ہیں ان کے دنیا میں آنے کا مقصد یا تو اپنے محبوب خُدا پر جان نثار کرنا ہوتا ہے یا ناموسِ رسالت پر یا اپنے ملک و ملت کی حفاظت اور آزادی کے لیے اپنی قیمتی متاع جان کو قربان کرنا ہوتا ہے اور اس سے بڑھ کر اس کے لیے کوئی اور سعادت بھی نہیں ہو سکتی۔ شہادت کی تمنا ہی ان کا سب سے بڑا مقصد ِ زندگی ہوتا ہے۔
جان دی ،دی ہوئی اس کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا
دوسرے مصرعے میں شاعر بے مقصد زندگی پر شرمندگی کا اظہار کرتا ہے۔شاعر حسرت و یاس کی تصویر بنا ہوا ہے کہ کاش ! وہ اپنے محبوب پر جان قربان کر دیتا تاکہ اس کا نام تاریخ میں امر ہو جاتا ۔کیونکہ عظمت جینے اور مرنے کے سلیقے میں ہے ۔ایسے لوگو ں کے متعلق خواجہ میر دردؔ نے کہا تھا
کام مردوں کے جو ہیں سو وہی کر جاتے ہیں
جان سے اپنی جو کوئی کہ گزر جاتے ہیں
اور فیض احمد فیض نے کہا تھا:
جس دھج سے کوئی مقتل گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں
شعر نمبر5
اس میں راہ سخن نکلتی تھی
شعر ہوتا ترا شعار ، اے کاش!
بنیادی فلسفہ: کاش! میرا محبوب سخن شناس ہوتا تاکہ میرا حال ِ دل سمجھ پاتا ۔
تشریح : “خدائے سخن ” میر تقی میرؔ اس شعر کے اندر حسرت کا اظہار کر رہا ہے کہ کاش ! میرا محبوب شعروں کی زبان سمجھتا تو مجھے اپنے دل کی بات کہنے میں آسانی ہوتی۔محبوب سے ملاقات اور اس سے بات چیت محب کی بڑی تمنا اور حسرت ہوتی ہے وہ اس سے ملنے کے سو سو بہانے تراشتا ہے لیکن ہر حربہ بیکار جاتا ہے تو شاعر شاعری کو اپنے جذبات اور احساسات کے اظہار کے لیے استعمال کرتا ہے لیکن افسوس صد افسوس !اس کےمحبوب کو شاعری کا ذوق نہیں ہے بقول شاعر :
ستم تو یہ ہے کہ ظالم سخن شناس نہیں
وہ ایک شخص کہ شاعر بنا گیا مجھ کو
اردو کلا سیکل شاعری میں آداب محبت کا ایک یہ بھی تقاضا تھا کہ محب اپنی محبت کا اظہار اپنی زبان سے نہیں کرتا تھا اس کے لیے کبھی نامہ ور کے ذریعے حال دل بھیجتا اور کبھی دیوانگئ شوق میں کوچہ جاناں میں نکل جاتا لیکن یہ دونوں صورتیں اس کے رازِ عشق کو عیاں کرنے کا سبب بنتیں ۔اس لیے شاعری سے بہتر کوئی اور راستہ حالِ دل کہنے کے لیے نہیں ہے جس سے بات محبوب تک بھی پہنچ جاتی ہے اور شاعر رسوائی سے بھی بچ جاتا ہے ۔لیکن ایسا محبوب ملنا مشکل ہے جو سخن شناس ہو۔ بقول شاعر
کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں
مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں
شاعری میں اکثر اوقات تشبیہات ،استعارات اور صنائع کے پردوں میں حال دل کہا جاتا ہے اگر محبوب سخن شناس ہوگا تو شاعر کا مدعا فورا سمجھ لے گا ورنہ شعر بے معنی ہی رہے گا۔
اشعار کے پردے میں ہم جن سے مخاطب ہیں
وہ جان گئے ہوں گے کیوں نام لیا جائے۔
یہ سخن جو میری زباں پہ ہے یہ سخن ہے اس کا کہا ہوا
یہ بیاں جو ہے مرے نام سے یہ بیاں ہے اس کا لکھا ہوا
مری شاعری مری زندگی مری بزم شعر و سخن میں آ
مری بے کلی کی بہار بن مرے اجڑے دل کے چمن میں آ
شعر نمبر6
شش جہت اب تو تنگ ہے ہم پر
اس سے ہوتے نہ ہم ، دوچار اے کاش!
بنیادی فلسفہ: کاش! عشق سے دوچار نہ ہوتے تو آج ان مصائب کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں میر تقی میرؔ عشق میں قدم رکھنے کے بعدپیش آنے والے سینکڑوں مصائب کا تذکرہ کر رہے ہیں۔محبوب ستم شعار بن جاتا ہے تو زمانہ عاشق کا دشمن بن جاتا ہے ۔ اپنے ، پرائے ، رشتہ دار اور احباب عاشق پر عرصہ حیات تنگ کر دیتے ہیں ۔ اور محب کو ہمیشہ اذیتوں،مصیبتوں ، ملامتوں اور بلاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بقول شاعر
اذیت مصیبت ملامت بلائیں
ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا
شاعر میر تقی میرؔ کی زندگی کی عکاسی بھی اس شعر میں ہوتی ہے کہ میرؔ جیسے عاشق نے بھی ساری زندگی غم ِ جاناں اور غمِ دوراں میں گزار دی ۔ میرؔ کی زندگی میں رنج و الم کے طویل باب کی ابتدا باپ کی وفات سے ہوئی تو لکھنو سے تلاش معاش کی فکر میں دہلی پہنچے پر یہ زمانہ شورشوں اورفتنہ و فساد کا زمانہ تھا ہر طرف تنگدستی و مشکلات برداشت کرنے کے بعد بالآخر میر گوشہ عافیت کی تلاش میں لکھنؤ روانہ ہوئے اور آخری تین سالوں میں جوان بیٹی او ر بیوی کے انتقال نے صدمات میں اور اضافہ کر دیا۔ تو میر ؔ کو کہنا پڑا
بے اجل میرؔ اب پڑا مرنا
عشق کرتے نہ اختیار،اے کاش!
شاعر کہنا چاہتا ہے کاش ! وہ محبوب کو نہ دیکھتا اور نہ عشق ہوتا اور نہ سکون کی دنیا اجڑتی ۔شش جہت سے مراد ہر طرف سے مصیبتوں کا آنا ہے۔جس میں آسمانی مصیبتوں کا تذکرہ بھی ہےاور قسمت کو بھی دوش دیا گیا ہے۔
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
اور
زمانے بھر کے غم یا اک ترا غم
یہ غم ہو گا تو کتنے غم نہ ہوں گے