کیا واقعی دنیا گول ہے؟ سبق کا خلاصہ

کیا واقعی دنیا گول ہے؟ ابنِ انشا کے سفر نامہ “دنیا گول ہے” سے لیا گیا ہے۔ابن انشا نت یہ سفراقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو میں ملازمت کے دوران کیے۔

کیا واقعی دنیا گول ہے؟ 

سفرنامہ نگار: ابنِ انشا

خلاصہ

 

ابن انشا  نے دنیا کو ہمیشہ  چپٹا ہی دیکھا ۔مصنف کے بقول دنیا کو گول کہنے والے اگر مشرق سے مغرب کی طرف  چلتے جائیں تو  دنیا کا چکر لگا کر اسی جگہ پہنچ جائیں گے جہاں سے چلے تھے ۔اس سے تو ہمارا ہی گول  ہونا ثابت ہوتا ہے۔ دوسرا ہمارا  اس مقصد کے لیے چھپکلی ہونا ضروری ہے ۔ورنہ تیل کا پیالہ الٹ کر دیکھیں گے کہ مشرق رہا نہ مغرب ۔ دنیا کی سیر کے دوران شاید ہم نیا جزیرہ دریافت کر لیں جہاں سے لوٹنے کو جی نہ چاہے ۔مصنف ابن بطوط بنے تو صبح کراچی ، دوپہر ڈھاکہ ، رات بنکاک اور مضمون لکھنے تک سنگا پور پہنچے ۔گھر میں ململ کا کرتا پہن اور غلیل کی طرح ٹانگیں پھیلا کر قوام والا پان چباتے ہوئے داستانِ امیر حمزہ پڑھنے کے لطف کی قدر ؛ کسی مسافر سے پوچھیے جو سفر کی تکالیف اٹھاتا اور پردیس کی ٹھوکریں کھاتا ہے ۔اگر مصنف کو بھی فرصت کے ایسے رات دن ملے تو ایک ایسا قیام نامہ لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ سفر نامہ لکھنے والوں کو دال روٹی کے لالے پڑ جائیں ۔کراچی یونیورسٹی والوں نے مصنف کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری نہیں دی تھی پھر بھی وہ خود کو ہمیشہ ” ڈاکٹر” ہی لکھتے ہیں ۔ ویسے بھی وہ جن لوگوں کی صحبت میں سفر کر رہے تھے وہ سب ہی ڈاکٹر تھے سوائے وجہیہ ہاشمی کے ۔ لہذا ان دونوں نے بھی ایک دوسرے کو اعزازی ڈاکٹر تسلیم کر لیا ڈاکٹر وجہیہ میڈیکل کی اصلاحات سے بقدر ضرورت واقف تھیں ۔لیکن مصنف  میڈیکل  ڈاکٹروں  کے سامنے علم و ادب کے ڈاکٹر اور علم و ادب کے ڈاکٹروں  کے سامنے میڈیکل ڈاکٹر بنے اور دونوں ڈاکٹروں کے سامنے   ہومیوپیتھی  میں پناہ لے لیتے ۔ ایک مرتبہ تو نوبت دانتوں کا ڈاکٹر بننے تک پہنچ گئی تھی  ۔بہرحال  اب  تو  غیر ملکی  بھی  مصنف  موصوف  کو  “ڈاکٹر ”  کہ  کر  بلاتے  ہیں  اس  لیے  اہل  وطن  کو  بھی  اپنی  ہٹ  دھرمی  چھوڑ  دینی  چاہیے۔

 

کیا واقعی دنیا گول ہے؟ ابنِ انشا کے سفر نامہ “دنیا گول ہے” سے لیا گیا ہے۔ابن انشا نت یہ سفراقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو میں ملازمت کے دوران کیے۔

کیا واقعی دنیا گول ہے؟ 

سفرنامہ نگار: ابنِ انشا

خلاصہ

سبق کے آغاز   میں مصنف دنیا کے گول ہونے کا ثبوت لینے کے لیے گھر سے نکل  کر دھرتی کا گز بنے اور بحرِ اوقیانوس کے پار تک ہو آئے     لیکن ان کو ہر چیز چپٹی ہی نظر آئی۔ مصنف کے نزدیک دنیا سے زیادہ ہم گول ہیں     کچھ لوگ  مشرق سے سفر کا آغاز کر کے  مغرب کی طرف سے اپنی جگہ پر آجانے کو دنیا کے گول ہونے کا ثبوت بنا کر پیش کرتے ہیں   ۔مصنف  کو   دنیا کے گرد  گولائی میں چکر لگاتے ہوئے بس یہی ڈر ہوتا ہے کہ کہیں نیچے نہ گر جائیں  کیونکہ وہ چھپکلی تھوڑا  ہیں ۔ سفر کا اختتام ہمیشہ اس  کٹورےوالے لڑکے کی طرح ہوتا  ہے جو تیل  لینے گیا  تو دوکاندار نے بچ جانے والے تیل کی بابت پوچھا تو اس نے پیندا اوپر کر کے تیل ڈلوا لیا جب گھر میں ماں نے کم  تیل  لانے کے بارے میں  دریافت کیا  تو اس نے پیندا نیچے کر کے باقی تیل بھی  زمین پر انڈیل  دیا  اور  خالی  کٹورا لیے رہ گیا  ۔ مصنف    داستانوی  کہانیوں کے کرداروں سند باد اور حاتم طائی  کی طرح سفر میں  مشکلات  اور  راحت کا سوچتے ہوئے  دنیا کے گول ہونے کا ثبوت لینے کے لیے  کراچی سے  سفر کا آغاز کرتے ہیں اور ان صفحات کو  کینوس  پر اتارتے وقت  سنگا پور میں موجود ہیں  ۔ مصنف  اُن لوگوں کی قسمت پر رشک کرتے ہیں جو گھر جیسی نعمت  سے ہمیشہ لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ گھر پر ٹانگ پر ٹانگ دھرے  داستانِ امیر حمزہ پڑھتے ہوئے  کم ازکم یہ اندیشہ تو نہیں ہوتا کہ  سفر کے بکھیڑوں  اور مشکلات کا سامنا  کرنا پڑے ۔ گھر پر  خوابِ خرگوش کے مزے لیجئے یا دوپہر تک چادر اوڑھے سوتے رہیے ایسی بے فکری اور  آزادی  سفر میں نہیں مل سکتی ۔   مصنف ان لوگوں کی قسمت  پر بھی رشک کرتے ہیں    جو گجرانوالہ تک  گئے بھی تو شام کو گھر لوٹ آتے ہیں۔  سفر کی مشکلات کا  آغاز  پاسپورٹ اور ویزے سے شروع ہو کر  ان  ملکوں کی کرنسی کے لیے  بینکوں  اور فارن ایکسینج والوں کے دفتروں کے چکر اور اس کے بعد  مختلف ہوائی کمپنیوں  کو اپنے سواری ہونے کے ثبوت دینے پر ختم ہوتا ہے  ۔ مصنف اپنی ایک خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ان کو کسی ایک جگہ مسلسل رہنے کا موقع ملے  تو وہ ایک ایسا سفر نامہ لکھیں جس کے سامنے بڑے بڑے سفر نویسوں کے سفر نامے ماند پڑ جائیں گے۔قارئین کو  سفر نہ کرنے کا   مشورہ  دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اجنبی دیسوں میں چور اچکوں کے ساتھ دل چرانے والے بھی بہت ہیں اور اپنے ناز نخرے بھی ہمیں خود ہی اٹھانے پڑتے ہیں ۔ کراچی یونیورسٹی والوں سے گلہ کرتے ہیں کہ انھوں نے ان کو  ڈاکٹریٹ کی ڈگری نہیں دی تو ان کو شرمندگی کا سامنا کرنا  پڑا کیونکہ جن لوگوں کے ساتھ وہ سفر کر رہے تھے وہ سبھی ڈاکٹر تھےاس کا حل مصنف نے یہ نکالا کہ انھوں نے وجیہہ ہاشمی کو اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی تو انھوں نے بھی  مصنف   کو اعزازی  ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے  نواز دیا  ۔ مصنف کو  کئی مرتبہ ڈاکٹر بننے کی کوشش میں تلخ سوالات  کا سامنا کر نا  پڑا ۔سبق کے آخر پر   ہم وطنوں  سے فرمائش  کرتے ہوئے کہتے  ہیں کہ ان دونوں  کو وطن واپسی پر ڈاکٹر کہہ کر پکارا  اور لکھا جائے۔

 (سفر نامہ: کیا واقعی دنیا گول ہے)

PDF DOWNLOADING

Leave a Comment