خدا سر سبز رکھے اس چمن کو مہرباں ہو کر
نظم کا نام
خدا سر سبز رکھے اس چمن کو مہرباں ہو کر
شاعر کا نام
بہار آئی کھلے گُل زیب صحنِ بوستاں ہو کر
عنادل نے مچائی دھوم سر گرمِ فُغاں ہو کر
بچھا فرشِ زمرد اہتمام سبزہ تر میں
چلی مستانہ وش بادِ صبا عنبر فشاں ہو کر
تشریح
“لسان العصر” اکبر الٰہ آبادی اردو شاعری میں اپنے طنزومزاح ،ظریفانہ اندازِ شاعری کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ۔۔ یہ نظم کلیات اکبر سے ماخوذ ہے۔ اس نظم کا اصل عنوان ” نماز چمن ” ہے ۔بہار کے موسم کے آتے ہی باغ نے سرخ رنگ کا لباس زیبِ تن کر لیا اور بلبلوں نے خوشی کے گیت گنگنانے شروع کر دیے ۔سبزے کا ہر رنگ ہر انگ قابل تحسین نظر آ رہا ہے یوں لگتا ہے کہ چمن کے اندر زمرد کا فرش بچھ گیا ہے۔ سبزے پر شبنم کے قطرے چمک رہے ہیں۔ بادِ نسیم اور بادِ شمیم چل رہی ہے اور وہ اپنے ساتھ پھولوں کی خوشبو بھی لیے جاری ہے۔ اس کے چلنے کا انداز مستی بھرا اور دیوانوں کی طرح ہے یعنی وہ پھولوں کو دیکھ دیکھ کر خود کو بھولی ہوئی ہے اور نشے میں جھوم جھوم کر چل رہی ہے۔
ہوا خیمہ زن کاروانِ بہار
ارم بن گیا دامن ِ کہسار
شاعر نے کمال منظر کشی کی ہے کہ بہار کے استقبال میں زمرد کا فرش بچھ گیا ہے باغ میں پھول کثرت سے کھل چکے ہیں اور پھولوں کے کھلنے سے باغ جنت کا نمونہ بن چکا ہے :
گلوں کا دور ہے بلبل مزے بہار کے لوٹ
خزاں مچائے گی آتے ہی اس دیار میں لوٹ
بہار کی آمد پہ باغ کا بوستاں کی شکل اختیار کرنا اور بلبلوں کے زمزمے قاری پر سحر طاری کر دیتا ہے ۔ صحنِ گلستاں کا پھولوں اور تازہ دم سبزے سے مزیں ہونا اس منظر کو مزید خوبصورت بنا رہا ہے ۔ سر مستی کی کیفیت میں بلبلیں اتنے جوش سے گیت گا رہی ہیں کہ ہر طرف دھوم مچ رہی ہے ۔
آمد بہار کی ہے جو بلبل ہے نغمہ سنج
اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی
شاعر کے نزدیک بہار کا موسم کسی تہوار سے کم نہیں ہے ۔جس میں گھر کو طرح طرح کے پھولوں سے سجایا جاتا ہے خوشبو کا خاس اہتمام کیا جاتا ہے ہر ممکن طریقے سے اس کو جاذبِ نظر بنایا جاتا ہے۔ایک اور شاعر نے اس قدر پھولوں کے کھلنے کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے:
دعا بہار کی مانگی تو اتنے پھول کھلے
کہیں جگہ نہ رہی میرے آشیانے کو
“شہنشاہ غزل ” میر تقی میر ؔ نے بہار کے موسم میں گلوں کے کھلنے اور بلبلوں کی محبت کا اظہار انوکھے انداز میں بیان کیا ہے :
گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگِ گُل سے میرؔ
بلبل دیکھ کے پکاری صاحب پرے پرے
باغ تو باغ ،بہار میں میں تو پوری دنیا گلستان کا منظر پیش کر رہی ہوتی ہے ۔ بہارکے موسم کو اردو شاعری میں ہمیشہ اچھے وقت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ جس میں عاشقوں پر جنونیت طاری ہو جاتی ہے۔جذبات کو ابھارتا ہے ۔اسی جذبے کو شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے :
پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کو پھر نغموں پہ اُکسانے لگا مرغِ چمن
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اُودے اُودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیراہن
تشریح طلب اشعارمیں ” صنعت مراۃ النظیر ” کا استعمال ہوا ہے۔”فرشِ زمرد ” ، ” اہتمام سبزہ تر ” ، ” مستانہ وش ” ، ” عنبر فشاں ” جیسی تراکیب شاعر کی ماہرانہ مہارت کی سند ہیں ۔
عروجِ نشہ نشو و نما سے ڈالیاں جھومیں
ترانے گائے مرغانِ چمن نے شادماں ہوکر
بلائیں شاخِ گل کی لیں نسیم صبح گاہی نے
ہوئی کلیاں شگفتہ روئے رنگیں بتاں ہو کر
تشریح
“لسان العصر” اکبر الٰہ آبادی اردو شاعری میں اپنے طنزومزاح ،ظریفانہ اندازِ شاعری کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ۔۔ یہ نظم کلیات اکبر سے ماخوذ ہے۔ اس نظم کا اصل عنوان ” نماز چمن ” ہے ۔ بہار کے موسم کے آتے ہی درختوں کی ڈالیوں کی نشوونما میں اضافہ ہو گیا۔اور وہ مسرت عام سے لہلہا رہی ہیں ۔ ہر ڈالی سر سبز پتوں اور پھولوں سے بھر گئی ہے ۔ نازک ڈالیاں جب ان کا وزن برداشت نہیں کر پاتیں تو ہوا کے چلنے سے لہلہانا شروع کر دیتیں ہیں ۔ رنگ و بُو کے دلدادہ پرندوں نے باغ کے اندر اپنے ڈیرے ڈال لیے ہیں اور خوشی کے گیت گنگنا رہے ہیں ۔
اٹھنا وہ جھوم جھوم کے شاخوں کا بار بار
بالائے نخل ایک جو بلبل تو گُل ہزار
پھولوں پہ جوانی ہے کلیوں پہ نکھار آیا
اس موسم فطرت پر قدرت کو بھی پیار آیا
شاخوں اور ڈالیوں کا جھومنا رقص ہی تو ہے ۔اگر باغ میں بہار کی وجہ سے ڈالیاں رقص کرتی ہیں تو پرندوں کا وجد میں آکر گیت گانا ایک قدرتی امر ہے ۔
ہر سمت گلستاں میں وہ انبار گلوں کے
شبنم سے دھوئے ہوئے رخسار گُلوں کے
ہر پھول کا چہرہ عرقِ حسن سے تر ہے
ہر چیز میں اک بات ہے ہر شے میں اثر ہے
دوسرے شعر کے اندر شاعر بہار کے موسم میں ایک اور منظر کو دیکھاتے ہوئے کہتا ہے کہ صبح کے وقت چلنے والی بادِ نسیم شاخوں سے لگے ہوئے گُلوں پر نثار ہو رہی ہے ۔ “بلائیں لینا ” محاورتاً استعمال ہوا ہے جس کے معنی ” صدقے باری جانا “ہوتا ہے ۔جس طرح ایک عاشق اپنے محبوب کے حسن پر صدقے باری جاتا ہے اسی طرح گل و بلبل ایک دوسرے کے صدقے باری جا رہے ہیں ۔ کلیاں محبوب کے حسین چہرے کی طرح محسوس ہو رہی ہیں ۔ کلیوں میں محبوب کا چہرہ نظر آنا اردو شاعری کی روایت رہی ہے بقول میر تقی میرؔ :
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
بہار کے موسم میں محبوب سے اٹھکیلیاں کرنے کو جی کرتا ہے ۔ اس کے گالوں کو سہلانے کا من کرتا ہے ۔اگر محبوب پاس نہیں ہے تو شاعر کو بیتا وقت اور محبوب کی ادائیں یاد آتی ہیں یہی منظر ناصرؔ کاظمی نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے :
پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے
پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے
پھر کونجیں بولیں گھاس کے ہرے سمندر میں
رت آئی پیلے پھولوں کی تم یاد آئے
تشریح طلب اشعارمیں ” صنعت مراۃ النظیر ” کا استعمال ہوا ہے۔”مرغانِ چمن ” ، ” بلائیں لینا ” ، “روئے رنگیں بُتاں ” ، عروجِ نشہ نشو و نما ” جیسی تراکیب شاعر کی ماہرانہ مہارت کی سند ہیں ۔
کیا پھولوں نے شبنم سے وُضو صحن ِ گلستاں میں
صدائے نغمہ بُلبل اُٹھی بانگِ اذاں ہو کر
ہوائے شوق میں شاخیں جھکیں خالق کے سجدے کو
ہوئی تسبیح میں مصروف ہر پتی زباں ہو کر
زبانِ برگِ گُل نے کی دعا رنگیں عبارت میں
خدا سر سبز رکھے اس چمن کو مہرباں ہو کر
تشریح
“لسان العصر” اکبر الٰہ آبادی اردو شاعری میں اپنے طنزومزاح ،ظریفانہ اندازِ شاعری کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ۔۔ یہ نظم کلیات اکبر سے ماخوذ ہے۔ اس نظم کا اصل عنوان ” نماز چمن ” ہے ۔تشریح طلب اشعار کے اندر شاعر چمن میں بہار کو اظہار تشکر کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا کرتے دیکھائی دیتا ہے ۔شاعر نے باغ کو دنیا سے تشبیہ دی ہے جس طرح دنیا میں عبادت کا مرکز اللہ کا گھر ہوتا ہے اور اس گھر میں پاکیزگی کو برقرار رکھنے کی خاطر وضو کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح صحن ِ باغ میں کھلنے والے گلاب کے پھولوں نے اوس کے قطروں سے وُضو بنایا۔جس طرح وُضو کے بعد پانی کے قطرے جسم پر موجود ہوتے ہیں اسی طرح پھولوں کی پتیوں پر اوس کے قطروں کا نظر آنا شاعر کو وُضو کی مانند نظر آتا ہے ۔وضو کے بعد عبادت کا دوسرا رکن اذان ہے صحنِ گلستان میں بلبل کی مدھور آواز کو اذان کی صورت میں پیش کیا ہے ۔اسی منظر کو ایک اور محسن کاکوروی نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے:
سبزہ ہے کنار آب جُو پر
یا خضر ہے مستعد وُضو پر
نوبت ہے صدائے قُمریاں کی
تیاری ہے باغ میں اذاں کی
محوِ تکبیر فاختہ ہے
قدو قامتِ سرو دلربا ہے
صحنِ گلستان میں بادِ صبا کے چلنے سے پھولوں سے لدی ڈالیاں اس طرح اللہ کی مدحت میں جھکیں جیسے کوئی صوفی سجدہ ریز ہوتا ہے ۔ درختوں کی پتیاں جو انسانی زبان کی طرح ہوتی ہیں ہوا کے چلنے سے پتوں سے اس طرح آواز پیدا ہوتی ہے جیسے صوفیوں کا ایک گرو استغراق میں ڈوب کر تسبیح و تہلیل میں مصروف ہو ۔
وہ قمریوں کا چار طرف سرو کے ہجوم
کوکو کا شور نالہ حق سرہ کی دھوم
سبحان ربنا کی صدا تھی علی العلوم
جاری تھے وہ جو ان کی عبادت کے رسوم
کچھ گل فقط نہ کرتے تھے ربِ علی کی مدح
ہر خار کو بھی نوک زباں تھی خدا کی مدح
عبادت سے فارغ ہو کر پھول کی پتیاں خوب صورت الفاظ میں رب سے دعا کرنے لگیں کہ وہ مہربان ہو کر اس باغ کو ہمیشہ شاد و آباد رکھے ۔عمومی طور پر “چمن ” کا لفظ بطورِ استعارہ ملک یا گھر کے لیے لیا جاتا ہے ۔ تو کہہ سکتے ہیں شاعر نے ملک کی سالمیت اور خوش حالی کے لیے دعا گو ہیں ۔بقول احمد ندیم قاسمی :
یہاں پہ جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پہ اترے
وہ فصلِ گُل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
تشریح طلب اشعارمیں ” صنعت مراۃ النظیر ” کا استعمال ہوا ہے۔”بانگِ اذاں ” ، ” برگِ گُل ” ، “صحنِ گلستاں ” جیسی تراکیب شاعر کی ماہرانہ مہارت کی سند ہیں ۔