allama Iqbal essay in urdu: علامہ اقبال مضمون

علامہ اقبال مضمون/میرا پسندیدہ شاعر

اَوروں کا ہے پیام اور، میرا پیام اور ہے
عشق کے درد مند کا طرزِ کلام اور ہے

علامہ اقبال کا تعارف :

سر علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے سب سے معروف  صوفی شاعر  ،سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے ۔  ان کی شاعری  کا  بنیادی   اور مرکزی رجحان تصوف اور احیائے امت ِ اسلامیہ  ہے   ۔  علامہ محمد  اقبال کو دورِ جدید کا صوفی  کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔ اسی وجہ سے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال میرے  پسندیدہ شاعر ہیں  ۔

  علامہ اقبال اردو اور فارسی زبان  کے واحد عظیم شاعر ہیں   ۔ اقبال کی  شاعری کا ترجمہ     دنیا بھر کی  زبانوں میں ہو رہا ہے    ۔ اگر  تحریک پاکستان کے تناظر میں ان کی شاعری کو دیکھا جائے تو اقبال کی شاعری  روح کو تڑپانے  اور قلب کو گرمانے والی ہے ۔ اقبال کی شاعری میں ایک فلسفہ ، درس اور پیغام ہے ۔ ان کی شاعری ایک مخصوص فکری و تہذیبی پس منظر میں سانس  لینے کے ساتھ ساتھ آفاقیت  کے پہلے بھی اجاگر کرتی  ہے ۔

ایک صوفی شاعر ہونے کے ناطےوہ ایک غیر معمولی فہم و ادراک اور شعور و بصیرت رکھنے والے شاعر تھے ۔ علامہ اقبال نے ایک ایسے دور میں شاعری کی ابتداء کی جب ہندوستانی  افراد برطانوی حکومت کے زیر  اثر قید و بند کی فضا میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے   اور  گوروں کی  حکومت  کے  ظلم و ستم کو سہنا  ان کا روز کا معمول بن گیا تھا جس کی وجہ سے   ہر طرف خوف و ہراس اور مایوسی و بے چارگی کی فضا  نے طاری  رہتی تھی ۔ علامہ اقبال  کی سوچ اور فکر ان  حالات سے بے حد متاثر ہوئی ان کے دل میں وطن سے محبت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔

علامہ اقبال کی شاعری :

علامہ اقبال کی شاعری کا آغاز ان کے  آبائی شہر سیالکوٹ کے مشاعروں  سے ہوالیکن  جب  علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے لئے لاہور پہنچے تو اس علمی ادبی مرکز میں ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کو ابھرنے ،   تربیت پانے اور نکھرنے  کا سنہری  موقع ملا ۔ اساتذہ شعر اء نے ایک مشاعرے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا ۔ جو ہر ماہ لاہور کے مشہور  بازارِ حکیماں میں منعقد ہوتا تھا  اقبال نے بھی اس محفل میں اپنا کلام پیش کیا  ۔علامہ اقبال کے درج ذیل شعر نے  ان کو  شہرت دوام عطا کی اور ان کی  پہچان بن گیا۔

موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے

قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے

علامہ اقبال اپنی   ابتدائی زندگی میں  ہی  عالمگیر شہرت حاصل کرچکے تھے ۔ آپ کے کلام کے متعدد ترجمے کئی بین الاقوامی زبانوں میں کئے گئے ہیں  ان کے کلام میں ہجرو وصال کی داستاں اور عشق  کی نوحہ گیری نہیں بلکہ قومی ہمدردی کے جذبات   کو ابھارتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ان کی شاعری  میں ایک جوش اور ولولہ ہے مسلمانوں کی گرتی ہوئی حالت اور غفلت میں سوئی ہوئی  قوم کو جگانے کے  لیے  علامہ اقبال نے ایک ایسا نسخہ کیمیا پیش کیا جس کے اجزا حوصلہ مندی ، خودداری  اور بے باکی تھے  ۔ 

علامہ اقبال اپنی شاعری  کے ذریعہ اپنی قوم کی توجہ مادہ پرستی سے ہٹا کر خدا کی محبت  کی طرف مائل کرنا چاہتے  تھے ۔ علامہ اقبال کی پسندیدگی کی ایک  وجہ یہ  بھی ہے کہ آپ   نہ صرف ایک شاعر تھے  بلکہ ایک مفکر ، مصلح قوم ، اخوت کے پیکر اور دانائے قوم بھی تھے ۔قوم نے انھی خدمات کی وجہ سے  آپ کو  ’’سر‘‘ اور ’’علامہ‘‘ جیسے خطابات سے نوازا  ۔

علامہ اقبال کی تصانیف :

علامہ اقبال کی اردو زبان میں پانچ کتابیں شائع ہوچکی ہیں ان کی سب سے پہلی کتاب’’علم الاقتصاد‘‘ ہے جو معاشیات کے موضوع پر ان کی پہلی تصنیف ہے  ۔ یہ 1903 میں شائع ہوئی اس کے علا وہ  اردو زبان میں علامہ اقبال کی شاعری کے چار مجموعے بانگ درا   ،   بال جبریل   ،  ضرب کلیم   اور   ارمغان حجاز      شائع ہوچکے ہیں ۔

اقبال کی شاعری کی شہرت:

اقبا ل کی شاعری کا چرچا  بازار حکیماں کے مشاعروں سے  لاہور کے کالجوں کی ادبی مجالس تک میں ہونے لگا ۔  اسی طرح کی ایک ادبی مجلس میں انہوں نے اپنی اولین نظم ”ہمالہ “ سنائی تو اسے  سامعین نے بہت پسند کیاگیا۔ اور یہی اقبال کی  پہلی تخلیق تھی  جس کی اشاعت   اپریل 1911ء میں شیخ عبدالقادر کے رسالے “محزن ”  میں  ہوئی۔ گویا یہ  ان کی باقاعدہ شاعری کا آغاز تھا۔ ان کے پہلے مجموعہ کلام ”بانگ درا“ کی اولین نظم یہی ہے۔ اور اسی نظم کے چھپنے کے بعد ان کی شہرت کو دوام ملا ۔

 علامہ محمد اقبال کی شاعری کو مختلف ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے ۔

اقبال کے ذہنی و فکری ارتقاءکی منازل کا تعین اس کی شاعری کو مختلف ادوار میں ملتا ہے   کیونکہ اقبال نے اپنے افکار و خیالات کے اظہار کا ذریعہ شاعری کو ہی بنا تھا ہے۔ اقبال کی شاعری کے مندرجہ ذیل چار ادوار ہیں۔

١۔ پہلا دور 1901ء      سے 1905      ءتک کا ہے  یعنی اقبال کے بغرضِ تعلیم یورپ جانے تک کی شاعری
٢۔دوسرا دور 1905 ء سے 1908ء   تک کا ہے :اقبال کے قیامِ یورپ کے زمانہ کی شاعری
٣۔ تیسرا دور 1908ء سے 1924 ء تک کا ہے :  یعنی یورپ سے واپس آنے کے بعد ”بانگ درا “ کی اشاعت تک کی شاعری
٤۔ چوتھا دور1924ء  تا  1938 ء  تک کا ہے : ”بانگ درا “ کی اشاعت سے اقبال کے وفات تک کی شاعری

اقبال کی شاعری کا پہلا دور:

اقبال کی شاعری کا پہلا دوران کی شاعری کی ابتداء یعنی 1901ء سے  1905 ءتک  کا ہے جب وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر یورپ روانہ ہوئے ۔ اس دور کی خصوصیات ذیل ہیں۔

اقبال اور روایتی غزل گوئی:۔

علامہ اقبال
اپنی شاعری کے بالکل ابتدائی زمانہ میں اقبال نے بھی اس وقت کی مشہور صنف شاعری   غزل گوئی کی جانب رکھی ۔  ان کی ابتدائی  غزلوں میں رسمی اور روایتی مضامین  مثلا ہجر و وصال ہی باندھے جاتے تھے ۔ اقبال کی شاعری کا پہلے دور میں  استاد   داغؔ دہلوی  کی زبان دانی اور شاعری کا چرچا تمام ہندوستان میں پھیلا تھا۔ اقبال نے اصلاح ِ سخن کی خاطر داغ  ؔ دہلوی سے رابطہ  کیا اور اصلاح لیتے رہے بلکہ داغ کا لب و لہجہ اور رنگ اپنانے کی بھی  کوشش  کی۔اور داغ کی طرز میں بہت سی غزلیں کہیں ۔ انہی میں ایک  مشہور غزل  یہ بھی تھی  جس کے چند اشعار یہ ہیں۔

نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی 
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیاتھی
تمہارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیاتھی

اقبال اور جدید نظم نگاری:

علامہ اقبال

علامہ اقبال نے جلد ہی اندازہ  ہو گیا  کہ  روایتی قسم کی غزل گوئی ان کے مزاج اور طبیعت سے مناسبت نہیں رکھتی اور انہیں اپنے خیالات کے اظہار کے لئے اس سے زیادہ وسیع میدان کی ضرورت ہے چنانچہ انہوں نے نظم نگاری کی جانب توجہ کی اور اس کا آغاز” ہمالہ “ جیسی آفاقی اور  خوبصورت نظم لکھ کر کیا جسے فوراً ہی قبول عام کی سند حاصل ہوگئی۔ اس سے ان  کا  حوصلہ بندھا اور انہوں نے نظم گوئی پر اپنی توجہ مرکوز کر دی  ۔ ابتدائی دور کی  انہی نظموں میں”نالہ یتیم “”ہلال عید سے خطاب“ اور ”ابر گہر بار“  نے خاص شہرت حاصل کی۔

 

اقبال کی شاعری پر مغربی اثرات:

ابتدا سے ہی اقبال اور مغرب کا چولی دامن کا  ساتھ تھا ۔  شاعری کے ابتدائی دور میں   انہوں نے بہت سی انگریزی نظموں کے خوبصورت ترجمے کئے ہیں۔  جن میں ”پیام صبح  ،عشق اور موت اور ”رخصت اے بزم جہاں  جیسی نظمیں ایسے تراجم کی واضح مثالیں ہیں۔ ااقبال  نے  شاعری کے  ابتدائی  زمانہ میں  بچوں کے لئے بھی بہت سی نظمیں لکھی ہیں۔ مثلاً مکڑاور مکھی، ایک پہاڑ اور گلہری، ایک گائے اور بکری ، بچے کی دعا، ماں کا خواب ، ہمدردی وغیرہ یہ تمام نظمیں بھی  مغربی شعراءکے کلام سے ماخوذ ہیں-

اقبال کا فلسفہ خودی:

اقبال کے ابتدائی دور کی کئی نظمیں اس لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت حاصل کر پائیں کیونکہ  ان میں اقبال کی فلسفہ خودی کے کئی عناصر اپنی ابتدائی اور خام شکل میں موجود ہیں۔ انھی عناصر نے اقبال کے نظام فکر میں بنیادی حیثیت اختیار کر لی اور اس کا نام فلسفہ خودی قرار پایا۔اقبال کے نزدیک  فلسفہ خودی کے پانچ  عناصر ہیں۔

 1: اقبال کے فلسفہ خودی میں انسان کی فضیلت ، استعداد اور صلاحیتو ں پر بہت زور دیا گیا ہے ۔ 
2:فلسفہ خودی کا دوسرا بڑا عنصر عشق اور عقل کی معرکہ آرائی میں  ہمیشہ عشق کی برتری کا اظہار  ملتا ہے۔
3:فلسفہ خودی کا ایک اور عنصر خیر و شر کی کشمکش بھی  ہے جو کائنات میں ہر آن جاری  رہتی ہے۔
4:فلسفہ خودی کا چوتھا   قوی عنصر حیاتِ جاوداں اور بقائے دوام کا تصور ہے۔
5:اقبال کے فلسفہ خودی میں  زندگی  ایک  جہد مسلسل  کا نام ہے ۔

اقبال کے ابتدائی دور کی شاعری  میں جستجو، کوشش، اظہار اور تعمیر کا  عنصر  غالب ہے اس دور کا اقبال نیچر پر ست ہے ایک اور  چیز  جو اس دور کی نظموں میں نمایاں نظر آتی ہے  وہ  تنہائی کا احساس ہے جو کہ صوفی کی زندگی کا ایک کامل عنصر ہے  اسی لیے کہا جا سکتا ہے کہ  بھری انجمن میں اپنے آپ کو تنہا سمجھنے کا احساس اور زادگانِ فطرت سے استعفار اور ہم کلامی اقبال کی رومانیت کی واضح دلیل ہے۔

اقبال کی شاعری کا دوسرا دور:

اقبال کی شاعری کا دوسرا دور  یورپ کی روانگی 1905ء  سے لےکر    1908 ء میں ان کے یورپ سے واپسی تک کے عرصہ پر محیط ہے۔ اقبال اس عرصہ میں زیادہ تر اپنی تعلیمی مصروفیات میں مگن رہے  ۔اس زمانہ کی شاعری کی خصوصیات درجِ ذیل ہیں:-

اقبال کا فلسفہ پیامبری:

اقبال  کی شاعری کے   دوسرے دور میں    یورپ کے مشاہدات کا عکس صاف نظر آتا ہے ۔ یورپ کی ترقی اور جدیدیت نے ان  کے مشاہدے  پر یہ راز کھولا کہ زندگی مسلسل جدوجہد ،  حرکت ، تگ و دو اور مسلسل آگے بڑھتے رہنے سے عبارت ہے۔

مولانا عبدالسلام ندوی کہتے ہیں:

” اسی زمانہ میں ان کا زاویہ نگاہ تبدیل ہوگیا اور انہوں نے شاعر کی بجائے پیامبر کی حیثیت اختیار کر لی۔“

 

چنانچہ انہوں نے ”طلبہ علی گڑھ کالج کے نام“ کے عنوان سے جو نظم لکھی اس میں کہتے ہیں۔

اور روں کا ہے پیام اور ، میرا پیام اور ہے
عشق کے دردمند کا طرز کلام اور ہے

اقبال کی یورپی تہذیب سے بےزاری:

اقبال یورپ کی ترقی سے متاثر تو ہوئے  لیکن  یورپ کی ترقی کی  انہیں مرغوب نہیں کرسکتی۔ وہ لندن میں بھی   صحیح اسلامی اصول و قوانین اور قرآنی احکام پر عمل کرنے اور بری باتوں سے پرہیز کرنے کے قائل  رہے ۔  انگلستان میں اپنے تین سالوں کے دوران مغربی تہذیب کا کھوکھلا پن ان پر ظاہر ہوتا گیا  وہ اس سے بےزاری کا اظہار و اشگاف الفاظ میں کرتے  رہے ۔

دیار ِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ زر اب کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پر بنے گا آشیانہ ناپا ئیدار ہوگا

اقبال اور اسلامی شاعری:

اقبال کو مغربی تہذیب کے کھوکھلے پن اور ناپائیداری کے  ادراک نے  اسلامی نظریہ فکر کی جانب راغب ہونے میں مدد دی ۔اور یہی وہ سوچ تھی جس نے ان  کے اندر ملتِ اسلامیہ کی خدمت کا جذبہ بیدار کیا۔ اس جذبے کی عکاسی ان کی نظم  ”شیخ عبدالقادر کے نام “  میں ہوتی ہے۔

اُٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق ِ خاور پر 
بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کردیں

اقبال کی فارسی شاعری کا آغاز:

اس دور میں اقبال نے اردو کے ساتھ ساتھ فارسی میں طبع آزمائی شروع  کر دی تھی  ۔ فارسی زبان کی وسعت اور اس کےذریعے   اظہار و بیان کی ہمہ گیری نے  اقبال کو فارسی زبان میں شاعری کرنے پر مجبور کیا ۔

اقبال کی شاعری کا تیسرا دور:

اقبال کی شاعری کے تیسرے دور کو   1908 ء    انگلستان سے واپسی سے شروع ہو کر    1924 ءمیں ”بانگ درا“ کی اشاعت تک   کا ہے ۔یہ دور ان کے افکار و خیالات کی تکمیل اور تعین کا دور ہے اس دور کی نمایاں  خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:ـ

اقبال کا تصور  وطنیت و قومیت:

اقبال نے قیام یورپ کے دوران اُن اسباب کا  گہرا مشاہدہ کیا جو مغربی اقوام کی ترقی اور عروج  میں مدد گار  و معاون  تھے ۔ خاص طور پر اسلامی ممالک کے زوال اور پسماندگی  کی وجہ تھے  ۔ اقبال کی بصیرت نے  مغربی اقوام  کے اقدامات  خاص طور پر  وطنیت اور قومیت کے  نظریے کو فاش کر دیا انہوں نے کہا کہ:

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اقوام میں مخلوق ِ خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے

اقبال کی اسلامی شاعری:

علامہ اقبال  نے اپنے تیسرے  دور میں  نہ صرف وطنیت اور قومیت کے مغربی نظریہ کو مسترد کیا بلکہ  ملت اسلامیہ  کے اسلامی نظریے کو فوقیت دینا شروع کر دی  ۔ اقبال کی پوری شاعری کا مرکز و محور ہی اسلامی نظریات و تعلیمات بن گئے۔ اگرچہ اس زمانہ میں انہوں نے دوسرے مذہبی پیشواؤں    رام اور گورونانک وغیرہ کی تعریف میں بھی نظمیں لکھیں   لیکن بحیثیت مجموعی ان کی پوری توجہ اسلام اور ملت اسلامیہ کی جانب  رہی ”شمع و شاعر“ اور ”خضر راہ“ اس زمانے کے حالات کا بھرپور جائزہ لیتی ہوئی نظمیں ہیں۔

وہ معزز تھے زمانہ میں مسلماں ہو کر 
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر 
قر آن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں 
اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار 

اقبال کا فلسفہ خودی:

تیسرے   دور میں اقبال کا فلسفہ خودی پوری طرح قوی ہیکل جوان بن کر سامنے آیا  اس دور میں اقبال کی  شاعری تمام کی تمام اسی فلسفہ  خودی   کی تشریح و توضیح ہے۔ چنانچہ اردو شاعری میں بھی اس فلسفہ کا اظہار کیا ہے :

تُو رازِ کن فکاں ہے، اپنی انکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا
خودی میں ڈوب جا غافل! یہ سِرِّ زندگانی ہے
نکل کر حلقۂ شام و سحَر سے جاوداں ہو جا

اقبال کی شاعری کا چوتھا دور:

اقبال کی شاعری کا یہ دور 1924ءسے لے کران کے وفات تک ہے اس کی نمایاں  خصوصیات درج ذیل ہیں۔

اقبال کی طویل نظمیں:

”بانگ درا“ میں اقبال کی کئی نظمیں خارجی اور سیاسی محرکات کے زیر اثر نظر آتی  ہیں اس لئے ان  نظموں میں جوش و جذبہ کی فضا پوری طرح قائم و دائم م رہی ۔  ”شکوہ“ اور  ”جواب شکوہ”   کے بعد  ”شمع و شاعر“  اور ،” طلوع اسلام“  نظموں نے خص شہرت حاصل کی  ۔ ان کی زیادہ تر  طویل نظمیں ”بال جبریل “ میں ہیں۔ جیسے ”ساقی نامہ“

اقبال  کے  ہاں نئے تصورات:

اس دور کے کلام میں کچھ نئے تصورات پر تجربات بھی  سامنے آئے مثلاً شیطان کے متعلق نظم ” جبریل ابلیس” میں اقبال فرماتے ہیں  :

ہے مری جرات سے مشت خاک میں ذوق نمود
میرے فتنے جامہ عقل و خرد کا تاروپو
گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے

قصہ آدم کو رنگیں کر گیا کسِ کا لہو

گزشتہ ادوار کی تکمیل :

بیشتر اعتبار سے یہ گزشتہ ادوار کی تکمیل کرتا ہے۔ مثلاً پہلے ادوار میں وہ یورپی تہذیب سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں جبکہ اس دور میں وہ اس کے خلاف نعرہ بغاوت بلندکرتے ہیں اور اس کے کھوکھلے پن کو واشگاف کرتے ہیں۔ 

اقبال کا مکمل فلسفہ شاعری :

اقبال اپنی  شاعری کے  فکری ارتقاءکی مختلف منازل سے ضرور گزرے  لیکن فکری اور نظریاتی تضاد کا شکار کبھی بھی  نہیں ہوئے ۔ ابتدائی دور میں وہ وطن پرست  نظر آتے ہیں  تو آخری دور میں وطن سے محبت غالب رہی  ۔

مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر

 

علامہ محمد اقبال  کی شخصیت اور شاعری کو  جوعظمت و احترام اور  مقبولیت ملی وہ شاید ہی کسی اور شاعر کو نصیب بھی ہو سکے  کیونکہ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانانِ برصغیر  پاک و ہند میں جذبہ خودی اور الگ  مسلم مملکت  کی اہمیت کا شعور پیدا کیا انھوں نے مسلمانوں میں ایک ایسی انقلابی روح پھونکی جو آج بھی  پاکستان مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہے ۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

علامہ اقبال کی وفات :

 شاعر مشرق علامہ محمد اقبال 21 اپریل ء 1938 کواس دارِ فانی سے رخصت  توہو گئے مگر ان کی شاعری آج بھی ہمارے دلوں  کی دعا بن کرگونج رہی ہے تو کہیں ترانے کی صورت میں قوموں کو بیدار کر رہی ہے ۔

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری

زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

 

 

علامہ اقبال کی حالات زندگی اور  شخصیت  پر اہم معروضی سوالات

علامہ محمد اقبال کی زندگی کے متعلق اہم کوئز سوالات

 

سوال نمبر 1: علامہ محمد اقبال کب پیدا ہوئے؟

جواب : علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877ء کو پیدا ہوئے

سوال نمبر 2:اقبال کس شہر میں پیدا ہوئے؟

جواب :اقبال   پنجاب کے  شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے

سوال نمبر 3:علامہ اقبال کے والد کا کیا نام ہے؟

جواب :علامہ محمد اقبال کے والد کا شیخ نور محمد تھا

سوال نمبر 4:علامہ اقبال کے  آباؤ اجداد کا تعلق  کس ہندو ذات کے خاندان  سے تھا؟

جواب :علامہ اقبال کے  آباؤ اجداد کا تعلق برہمن    ذات سے تھا؟

سوال نمبر 5:علامہ اقبال نے ابتدائی تعلیم کس ادارہ سے حاصل کی ؟

جواب :علامہ اقبال نے ابتدائی تعلیم اسکاچ مشن اسکول  سے حاصل کی۔

سوال نمبر 6:علامہ اقبال کے  پہلے  استاد کا کیا نام ہے؟

جواب : علامہ اقبال کے ابتدائی استاد  کا نام میر حسن ہے؟

سوال نمبر 7:علامہ اقبال نے کتنے سال میں میٹرک کا امتحان پاس کیا؟

جواب : علامہ اقبال نے  سولہ  سال میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔

سوال نمبر 8: علامہ محمد اقبال  نے ابتدائی  شاعری پر اصلاح کس مشہور شاعر سے لی  ؟

جواب  : داغؔ دہلوی اقبال کے پہلے استاد تھے جن سے انھوں نے اصلاح لی ۔

سوال نمبر9:علامہ اقبال نے کس  سال میں میٹرک کا امتحان پاس کیا؟

جواب : علامہ اقبال نے 1883ء  میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔

سوال نمبر 10:علامہ اقبال نے ایف  ۔ اے  کا امتحان  کب پاس کیا؟

جواب : علامہ اقبال نے 1885ء  میں ایف ۔اے کا امتحان پاس کیا۔

سوال نمبر 11:علامہ اقبال نے بی۔اے  کا داخلہ کس کالج میں لیا ؟

جواب : علامہ اقبال نے بی ۔اے کا داخلہ گورنمنٹ کالج لاہور میں لیا

سوال نمبر12:علامہ اقبال نے بی ۔اے میں کون سے مضامین ر کھے ؟

جواب :علامہ اقبال نے بی ۔اے میں انگریزی ، فلسفہ اور عربی کے مضامین منتخب کیے۔

سوال نمبر 13:انگریزی ، فلسفہ اور عربی کے مضامین منتخب کیے نے بی۔اے کا امتحان کب پاس کیا ؟

جواب : علامہ اقبال نے بی۔اے کا متحان 1898ء میں پاس کیا ۔

سوال نمبر 14:علامہ اقبال  کا  ایم ۔اے کس   مضمون میں ہے ؟

جواب : علامہ اقبال  کا  ایم ۔اے فلسفہ  کے    مضمون میں ہے

سوال نمبر 15:اقبال نے اپنا مشہور شعر  کس سال  میں کہا ؟

موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے

قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے

جواب : اقبال کا یہ شعر 1898 کا ہے   ۔

سوال نمبر 16:علامہ اقبال کی شاعری کے کتنے ادوار ہیں ؟

جواب : علامہ اقبال کی شاعری کے تین (چار )  ادوار ہیں ؟

سوال نمبر 17:”علم الاقتصاد” کس کیا کتا ب ہے؟

جواب :  “علم الاقتصاد” علامہ محمد اقبال کی کتاب ہے

سوال نمبر 18:علامہ محمد اقبال کی کتاب “علم الاقتصاد” کب شائع  ہوئی   ؟

جواب : علامہ محمد اقبال کی کتاب “علم الاقتصاد”1904ء میں  شائع  ہوئی   ؟

سوال نمبر 19:علامہ محمد اقبال کا بطورِ اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی تقرر کس کالج میں ہوا؟

جواب : علامہ محمد اقبال کا بطورِ اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی تقرر گورنمنٹ کالج لاہور میں  ہوا؟

سوال نمبر 20:علامہ محمد اقبال نے دورہ انگلستان کے لیے کب روانہ ہوئے ؟

جواب : علامہ محمد اقبال نے دورہ انگلستان کے لیے 1905ء میں  روانہ ہوئے

سوال نمبر 21: علامہ محمد اقبال نے انگلستان  کی کس یونیورسٹی میں داخلہ لیا ؟

جواب : علامہ محمد اقبال نے انگلستان  کی  کیمبرج یونیورسٹی ٹرنٹی کالج میں داخلہ  لیا ۔

سوال نمبر 22: علامہ محمد اقبال نے  کس یونیورسٹی سے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی ؟

جواب :علامہ محمد اقبال نے میونخ یونیورسٹی سے  فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔

سوال نمبر 23: اقبال کی مشہور مثنوی “اسرار خودی کا  انگریزی ترجمہ سب سے پہلے کس نے کیا ؟

جواب : اقبال کی مشہور مثنوی “اسرار خودی کا  انگریزی ترجمہ سب سے پہلے نکلسن نے   کیا ؟

سوال نمبر 24: علامہ محمد اقبال کو میونخ یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کب   دی؟

جواب : علامہ اقبال کو  نومبر 1907 ء کو میونخ یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دے دی

سوال نمبر 25:علامہ اقبال لندن سے واپس کب آئے ؟

جواب : علامہ اقبال لندن سے واپس جولائی  1908ء میں  آئے ؟

سوال نمبر 26: علامہ محمد اقبال کو  برطانوی حکومت نے ” سر ” کا خطاب کب دیا ؟

جواب : علامہ محمد اقبال کو  برطانوی حکومت کی طرف سے “سر  ” کا خطاب 1922ء میں ملا ۔

سوال نمبر 27:اقبال  ”  انجمن حمایت اسلام ”  کے اعزازی صدر کب منتخب ہوئے ؟

جواب : اقبال انجمن حمایت اسلام کے اعزازی صدر 1922ء میں منتخب   ہوئے

سوال نمبر 28:  علامہ اقبال نے  گورنمنٹ کالج لاہور میں کون سی کتاب مرتب کی تھی ؟

جواب : اقبال نے  گورنمنٹ کالج لاہور میں  ایک کتاب ” تاریخ ہند ” مرتب کی جو 1913 ء کو چھپ کر آئی۔

سوال نمبر 29:اقبال نے میٹرک کے طلبہ کے لیے  1927ء میں ایک  فارسی کی نصابی کتاب  مرتب  کی تھی کتاب کا نام کیا تھا ؟

جواب : نصابی کتاب کا نام   ” آئینہ عجم ” تھا

سوال نمبر 30: علامہ اقبال کی سوانح  ” ذکرِ اقبال ”  کے مصنف کاکیا  نام  ہے؟

جواب : علامہ اقبال کی سوانح  ” ذکرِ اقبال ”  کے مصنف کانام  عبدالمجید سالک ہے؟

سوال نمبر 31:علامہ اقبال نے اپنی مشہور نظم ” خضر راہ ” کس سال اور کہاں پڑھی ؟

جواب : علامہ اقبال نے اپریل ، 1922 ء کو انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں  اپنی طویل نظم ” خضر راہ ’ ’ سنائی ۔

سوال نمبر 32: علامہ اقبال نے اپنی مشہور نظم ” طلوع اسلام  ” کس سال اور کہاں پڑھی ؟

جواب : علامہ محمد اقبال نے  مارچ 1923 ء کو انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں اپنی معروف نظم طلوع اسلام ” پڑھی۔

سوال نمبر 33:آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس 1930ء میں کس شہر میں منعقد ہوا ؟

جواب  : الہ آباد میں

 سوال نمبر 34: علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد کب دیا ؟

جواب : علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد 1930ء میں   دیا ۔

سوال نمبر 35:علامہ اقبال نے اپنا دوسرا دورہ انگلستان کب  کیا ؟

جواب : علامہ اقبال نے 1931ء میں دوسرا   دورہ  انگلستان کیا۔

سوال نمبر 36:علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح  کی ملاقات کب “جاوید منزل  ” میں ہوئی ؟

جواب :  مئی 1936 ء کو حضرت قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ اقبال سے ملنے جاوید منزل ” تشریف لائے ۔

سوال نمبر 37: علامہ اقبال کی نثری  تصانیف  کون سی ہیں ؟

 علم الاقتصاد – اشاعت  1903ء

سوال نمبر 38:علامہ اقبال کی فارسی شاعری  کی تصانیف کون سی ہیں ؟

  1. اسرار خودی – 1915 ء
  2. رموز بے خودی – 1917 ء
  3. پیام مشرق – 1923 ء
  4. زبور عجم – 1927 ء
  5. جاوید نامہ – 1932 ء
  6. مسافر – 1936 ء
  7. پس چہ باید کرداے اقوام شرق – 1931 ء

سوال نمبر 39: علامہ اقبال کی اردو شاعری کی تصانیف کون سی ہیں ؟

  1. بانگ درا – 1924
  2. بال جبریل – 1934
  3. ضرب کلیم – 1936
  4. فارسی + اردو شاعری ارمغان حجاز – 1938

سوال نمبر 40: علامہ اقبال کی انگریزی تصانیف کون سی ہیں اور کب اشاعت ہوئی ؟

  1. فارس میں ماوراء الطبیعیات کا ارتقاء – 1908
  2. اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو – 1930 ء

سوال نمبر 41:علامہ اقبال کی وفات  کب اور کہاں  ہوئی ؟

جواب : علامہ محمد اقبال نے  21 اپریل 1938 ء کو لاہور میں  وفات پائی  

سوال نمبر 42: علامہ اقبال کہاں پر  سپرد خاک کیا گیا ؟

 علامہ اقبال  کو لاہور میں بادشاہی مسجد کے احاطے  میں   سپرد خاک کیا گیا ۔

 

Leave a Comment