سر سید کے اخلاق و خصائل سبق کو مولانا الطاف حسین حالیؔ نے لکھا ہے یہ سبق سر سید احمدخاں کی سوانح عمری ہے کتاب کا نام “حیات ِ جاوید “ہے ۔ اس میں مولانا الطاف حسین حالیؔ نے سر سید کی شخصیت سے متاثر ہو کر مسلمانان ہند کے سامنے وہ جیتی جاگتی مثال پیش کی جس کی مساعی سے ہندوستان کےمسلمانوں کی سیاسی، سماجی، مذہبی، تمدنی، فکری، تعلیمی اور ادبی زندگی میں ایک انقلا ب آگیا۔
سر سید کے اخلاق وخصائل
سوانح نگار : مولانا الطاف حسین حالی
خلاصہ
سر سید کے اخلاق و خصائل سبق کا آغاز حالیؔ سرسید کی مہمان نوازی سے کرتے ہیں کہ ان کا دستر خوان ہمیشہ دوستوں اور مہمانوں سے بھرا رہتا تھا اگر سرسید کےکھانے کی بات کی جائے تو ان کو موسمی سبزیاں ، پھل اور کھانے کے بعد دودھ پینا اچھا لگتا تھا ۔
سرسید کا مزاح ہمیشہ تہذیب و شائستگی کے دائرے میں ہوتا تھا ۔
سرسید مطالعہ مصنف کے خیالات سے آگاہی کے لیے کرتے تھے ۔
تمام احباب کےخطوں کا جواب باقاعدگی سے دیتے تھے۔
حالی ،سر سید کی ذہانت کو ان کی محنت اور مستقل مزاجی کے مرہون ِ منت سمجھتے ہیں ۔جس سے ان کی ذہانت خداداد نظر آتی ہیں ۔
دورہ انگلستان کے دوران “خطباتِ احمدیہ” کے لکھتے لکھتے موسم کی شدت اور محنت ِ شاقہ نے ان کے پاؤں میں ایک ایسا مرض پیدا کر دیا جو تا حیات ان کی زندگی کا حصہ رہا۔ہندوستان آکر بھی انھوں نے “سائنٹیفک سو سائٹی ” کے مکان کے لیے سخت گرمی کے موسم کا سامنا کیا۔
دوستوں سے بے تکلفی اور دل لگی سے وہ اکثر اپنی تھکان اور رنج و ملال کا مداوا کیا کرتے تھے۔
سر سید کے اخلاق و خصائل سبق میں حالیؔ ان کا ماتحتوں سے حسن سلوک اور بچوں سے پیار جداگانہ تھا۔
اردو ادب میں سچائی اور آزادی کی داغ بیل بھی سر سید نے ڈالی ۔ سرسید جس طرح خود راست باز تھے اس طرح وہ اپنے حلقہ احباب میں بھی یہی خوبی چاہتے تھے وہ سچ لکھنے والوں اور سچ کہنے والوں کی ہمیشہ قدر کرتےتھے ۔
محبت کا درجہ عام لوگوں کی نسبت سر سید احمد خان میں بہت زیادہ تھا یہ محبت خاندان سے ہو یا ملازموں سے ؛ ملک سے ہو یا دوستوں سے ۔ بھائی اور والدہ سے محبت لازوال تھی۔
اسی وجہ سے سر سید ایسے پارس پتھر کی طرح تھے جو ایک مرتبہ آپ سے ملتا آپ کا ہی ہو کے رہ جاتا تھا ۔
دہلی کی بربادی کا غم تاحیات رہا ۔سرسید کے نمایاں اوصاف میں متاعِ دنیا سے بے نیازی تھی۔کبھی دولت جمع نہیں کی جو کمایا نیک نامی کے ذرائع پر صرف کر دیا۔ضرورت مندوں۔غریبوں کی امداد گیری کے حوالے سے بیسیوں مثالیں آپ کی زندگی سےدی جا سکتی ہیں ۔
خانگی اخراجات کی کبھی پرواہ نہ کرنا ، اچھی کتاب کو 20 گنی قیمت پر بھی خرید لینا ، مزدوروں کو ان کی محنت اور توقع سے زیادہ مزدوری دینا آپ کے اوصاف جمیلہ کی کچھ مثالیں ہیں ۔
سرسید کے اخلاق و خصائل میں اعلٰی ظرفی ان کی والدہ کی تربیت کا ہی پیش خیمہ ہے جنہوں نے معاف کرنے اور درگزر کرنے کو کامیابی کا زینہ قرار دیا اور انتقام ، اللہ ذوالجلال کی ذات پر چھوڑنے کا کہا ۔
سر سید مسلمانوں کی ترقی کے لیے امراء سے لے کر حاکمان ِوقت کے درباروں تک تو گئے لیکن اپنا تن من داغدار نہیں ہونے دیا ۔ مسلمانوں کی ذہنی اور معاشرتی پسماندگی ان کو خون کے آنسو رولاتی تھی وہ دنیا دار سے نظر آتے تھے لیکن مجسم مسلمان تھے۔ بقول اکبرالہ آبادی