Welcome to our blog “Iqbal Day Speech in Urdu”, where we celebrate the life and legacy of Allama Muhammad Iqbal, one of the greatest poets and philosophers of the East. As Iqbal Day approaches, we find ourselves immersed in the profound thoughts and visionary ideas of this remarkable poet-philosopher. Iqbal Day is not just a date on the calendar; it’s an opportunity to pay homage to the man who ignited the flames of inspiration and change through his poetry and philosophy. In this blog post, we will explore the significance of Iqbal Day and how to prepare and deliver a powerful and impactful speech in Urdu that pays tribute to the ‘Spiritual Father of Pakistan.’ Join us on this journey as we delve into the essence of Iqbal’s teachings and the art of delivering an Iqbal Day speech in Urdu that resonates with the hearts and minds of the audience.”
“ہمارے بلاگ” علامہ اقبال پر تقریر “میں خوش آمدید، جہاں ہم مشرق کے عظیم شاعروں اور فلسفیوں میں سے ایک علامہ اقبال کی زندگی اور میراث کا جشن مناتے ہیں۔ یوم اقبال قریب آتے ہی ہم اپنے آپ کو اس قابل ذکر شاعر فلسفی کے گہرے خیالات اور بصیرت افکار میں ڈوبے ہوئے پاتے ہیں۔ یوم اقبال صرف کیلنڈر کی ایک تاریخ نہیں ہے؛ یہ اس شخص کو خراج عقیدت پیش کرنے کا موقع ہے جس نے اپنی شاعری اور فلسفے کے ذریعے تحریک اور تبدیلی کے شعلے جلائے۔ اردو میں ایک طاقتور اور اثر انگیز تقریر تیار کرنے اور پیش کرنے کے لیے جو ‘پاکستان کے روحانی باپ’ کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ اس سفر میں ہمارے ساتھ شامل ہوں کیونکہ ہم اقبال کی تعلیمات کے نچوڑ اور اردو میں اقبال ڈے پر تقریر کرنے کے فن کو تلاش کر رہے ہیں جو سامعین کے دل و دماغ سے گونجتی ہے۔”
صدر محترم اور حاضرین ِ محفل ! آج مجھے جس عظیم شخصیت کو سلام عقیدت پیش کرنا ہے وہ ہے :
علامہ محمد اقبال
جناب والا! علامہ محمد اقبال بلا شبہ ہماری دعاؤں کا جواب تھے۔ بزم ہستی کا انتخاب تھے۔ آپ عظیم مرد مومن تھے اور قدرت ان جیسے عظیم انسانوں کو تاریخ ساز کارناموں کیلئے تخلیق کرتی ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں چاروں طرف غلامی کے اندھیرے چھائے ہوئے تھے۔ فرزندان اسلام غفلت کی نیند سورہے تھے۔ ایسے عالم میں اقبال کی آواز آزادی کا ترانہ بن کر گونجی ۔ آپ کا پیغام قدرت کا انعام بن کر گونجا۔ اسی احساس سے آپ فرماتے ہیں:
میں بندۂ ناداں ہوں، مگر شُکر ہے تیرا
رکھتا ہوں نہاں خانۂ لاہُوت سے پیوند
اک ولولۂ تازہ دیا مَیں نے دلوں کو
لاہور سے تا خاکِ بخارا و سمرقند
تاثیر ہے یہ میرے نفَس کی کہ خزاں میں
مُرغانِ سحَر خواں مری صحبت میں ہیں خورسند
جناب صدر ! علامہ محمد اقبال مردِ مومن تھے علامہ محمد اقبال شاعرِ مشرق تھے اور حکیم الامت تھے آپ مردِ مومن تھے اور چاہتے تھے کہ برصغیر کا ہر مسلمان ایمان کی تفسیر بن جائے ۔ آپ نے مردہ دلوں کو حیات نو کا نغمہ سنایا ؛ گرتے ہوؤں کو اٹھایا ؛ غلامی میں بھٹکنے والوں کو صبح آزادی کا جلوہ دکھایا۔ اس مقصد کی خاطر آپ نے ایمان ویقین کے چراغ روشن کئے اور مسلمانوں کو سمجھایا کہ :
جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال و پرِ رُوح الامیں پیدا
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اُس کے زور بازو کا!
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
جناب صدر! علامہ محمد اقبال محسن اسلام تھے۔ آپ نے اپنی قوم کو ماضی کے نغمے سنائے ۔ اپنے عظیم اسلاف کی شان دکھلائی۔ آپ کی پوری شاعری ہمارے روشن ماضی کے جلوؤں سے آباد ہے۔ آپ چاہتے تھے کہ آج کے مسلمان اپنے عظیم بزرگوں کے کارناموں پر ایک نظر ڈالیں تا کہ انہیں آزادی کی قدر و قیمت کااحساس ہو سکے۔ اسی لئے کہتے ہیں۔
کبھی اے نوجواں مسلم !تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا جس کا ہے تو اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سردارا
جناب صدر! اقبال نے مشرق کو دیکھا۔ تعلیم کیلئے یورپ کی درس گاہوں میں گئے۔ وہاں کی تہذیب و تمدن کی چکا چوند دیکھی۔ انہیں احساس ہوا کہ یورپ کی چمک دمک عارضی ہے جبکہ اسلام کا تہذیبی جمال حقیقت میں لازوال ہے۔ آپ کی نظروں میں عشق مصطفٰی ﷺ کا نور بسا ہوا تھا اس لئے یورپ کی تہذیب آپ کو متاثر کرنے میں ناکام ہو گئی۔ چنانچہ بڑے فخر سے محبت رسول ﷺ کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
جناب والا! علامہ اقبال بڑوں کے شاعر بھی تھے اور بچوں کے بھی۔ آپ کا پیغام مسلمانوں کیلئے بھی تھا اور عالم انسانیت کیلئے بھی۔ آپ کو ملت کے نوجوانوں سے خصوصی پیار تھا۔ آپ ان نوجوانوں کو شاہین کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ شاہین جو ہمیشہ محو پرواز رہتا ہے۔ آسمانوں کی بلندیوں کو چھوتا ہے۔ اسی لئے آپ مسلمان نوجوانوں کو شاہین بننے کا پیغام دیتے ہوئے شاہین کے حوالے سے کہتے ہیں۔
کِیا میں نے اُس خاک داں سے کنارا
جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ
بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو
ازل سے ہے فطرت مری راہبانہ
نہ باد بہاری، نہ گُلچیں، نہ بُلبل
نہ بیماریِ نغمۂ عاشقانہ
خیابانیوں سے ہے پرہیز لازم
ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ
ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری
جواں مرد کی ضربتِ غازیانہ
حمام و کبوتر کا بھُوکا نہیں مَیں
کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہُو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
یہ پورب، یہ پچھم چکوروں کی دنیا
مِرا نیلگوں آسماں بیکرانہ
پرندوں کی دُنیا کا درویش ہوں مَیں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
صدر محترم! اقبال کی آواز دلوں میں اتر گئی اور فرزندان اسلام شاہین اسلام بن گئے۔ اقبال ماضی حال اور مستقبل کے شاعر تھے۔ سب سے بڑھ کر آپ کی خواہش تھی کہ مسلمان حضور نبی کریم ﷺ کے سچے غلام بن جائیں۔ محبت رسول ﷺ میں وہ قوت ہے جو بندوں کو خدائی کے آداب بخشتی ہے۔ غلاموں کو آقائی سکھاتی ہے۔ جو نبی کریم ﷺ کا غلام بن جاتا ہے زمانہ ہی اس کے سامنے نہیں جھکتا بلکہ لوح و قلم بھی اس کے بن جاتے ہیں۔ میں اپنی تقریر کا اختتام اقبال کے اس پیغام پر کرنا چاہتا ہوں :
نگہ الجھی ہوئی رنگ و بو میں
خرد کھوئی گئی ہے چار سو میں
نہ چھوڑ اے دل فغان صبح گاہی
اماں شاید ملے اللہ ہو میں